پوچھی نہ خبر کبھی ہماری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوچھی نہ خبر کبھی ہماری
by عبدالرحمان احسان دہلوی

پوچھی نہ خبر کبھی ہماری
لی خوب خبر اجی ہماری

ہم لائق بندگی نہیں تو
بس خیر ہے بندگی ہماری

اے دیدۂ نم نہ تھم تو ہرگز
ہے اس میں ہی بہتری ہماری

یاں تیری کمر ہی جب نہ دیکھیں
پھر ہیچ ہے زندگی ہماری

ہم جان چکے کہ جان کے ساتھ
جاوے گی یہ جانکنی ہماری

چلنے کا لیا جو نام تو نے
بس جان ابھی چلی ہماری

بگڑے ہو بھلے بھی بات کہتے
قسمت ہی بری بنی ہماری

اس زلف کے سلسلہ میں ہیں ہم
ہے عمر بہت بڑی ہماری

کیوں کر نہ کٹی زباں تمہاری
ہاں اور کرو بدی ہماری

کہتے ہیں پلٹ گیا وہ رہ سے
تقدیر الٹ گئی ہماری

اب ہنستے ہیں ہم پہ لوگ ورنہ
مشہور تھی یاں ہنسی ہماری

ہم ہٹتے ہیں ملک عشق سے کب
ہیٹی کسی نے کہی ہماری

کیا کام کسی سے ہم کو احسانؔ
ہم اور یہ بے کسی ہماری

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse