پوچھو نہ کچھ ثبوت خرد میں نے کیا دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوچھو نہ کچھ ثبوت خرد میں نے کیا دیا  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

پوچھو نہ کچھ ثبوت خرد میں نے کیا دیا
ایک مست ناز کو دل بے مدعا دیا

اب کیا گلہ کروں عدم التفات کا
میری نگاہ یاس نے سب کچھ جتا دیا

بڑھتے ہوئے شعور میں گم ہو رہا ہوں میں
احساس حسن آپ نے اتنا بڑھا دیا

دیکھی نہ جب تجلیٔ تکرار آشنا
بے رنگیوں کا رنگ خودی نے جما دیا

ہے شاد بے دلی پہ تہی دست آرزو
اچھا کیا نشان تمنا مٹا دیا

مایوس جلوہ ہائے طرب ہوں خبر نہیں
دل خود ہی بجھ گیا کہ کسی نے بجھا دیا

کیا لطف اضطراب دکھاؤں کہ آپ نے
احساس درد درد سے پہلے مٹا دیا

انجام دید و عید اب اے ہم نشیں نہ پوچھ
وہ مجھ کو یاد ہے مجھے جس نے بھلا دیا

معلوم تھا تجھے کہ وہ درد آشنا نہیں
منظورؔ دل کا درد انہیں بھی سنا دیا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse