پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
by شبلی نعمانی

پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا

شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا
وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا

میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشانی شب ہجر
ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا

پارہ ہائے دل خونیں کی طلب تھی پیہم
شب جو آنکھوں میں مری ذوق خود آرائی تھا

رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو
قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا

آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا
لب پہ اے جان تو اعجاز مسیحائی تھا

خون رو رو دیے بس دو ہی قدم میں چھالے
یاں وہی حوصلۂ بادیہ پیمائی تھا

دشمن جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا

انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پیہم
جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا

کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقش قدم
چشم عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا

خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا
لحد تیرہ میں بھی کیا عالم تنہائی تھا

ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی
یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse