پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا
by صفی اورنگ آبادی

پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا
تم نہ جانو تو خدا جانے مجھے کیا ہو گیا

عاشقی میں وہم بڑھتے بڑھتے سودا ہو گیا
قطرہ قطرہ جمع ہوتے ہوتے دریا ہو گیا

وہ سراپا ناز ہے مجھ سے برا تو کیا کروں
چار نے اچھا کہا جس کو وہ اچھا ہو گیا

عاشقی میں نام اگر درکار ہے بد نام ہو
دیکھ سب کچھ ہو گیا جب قیس رسوا ہو گیا

کچھ ہو لیکن اب مرا دل تم سے پھر سکتا نہیں
یہ تو جس کا ہو گیا کم بخت اس کا ہو گیا

اپنے پہلو میں بٹھایا آپ نے اغیار کو
دیکھیے بیٹھے بٹھائے کا یہ جھگڑا ہو گیا

لے لیا یاد مژہ نے مجھ کو سیل اشک سے
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہو گیا

داغ ہائے ہجر میں بھی دل میں ہیں خار شوق بھی
باغ کا باغ اور یہ صحرا کا صحرا ہو گیا

لے کے دل الزام دیتے ہو غنیمت ہے یہی
مال کا مول آ گیا ادلے کا بدلا ہو گیا

دل کی گھبراہٹ نسیم صبح دم سے کم ہوئی
وہ نہ آئے غیب سے سامان پیدا ہو گیا

کیا یہی ہے شرم تیرے بھولے پن کے میں نثار
منہ پہ دونوں ہاتھ رکھ لینے سے پردا ہو گیا

میری ہر اک بات قانون محبت ہے مگر
اے صفیؔ میں شاعری کرنے سے جھوٹا ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse