پوچھتا کون ہے ڈرتا ہے تو اے یار عبث

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوچھتا کون ہے ڈرتا ہے تو اے یار عبث
by بیاں احسن اللہ خان

پوچھتا کون ہے ڈرتا ہے تو اے یار عبث
قتل کرنے سے مرے ہے تجھے انکار عبث

کیا مری آنکھ عدم بیچ لگی تھی اے چرخ
کیا اس خواب سے تو نے مجھے بیدار عبث

وصل ہی اس کا دوا ہے مری بیماری کو
اور کچھ کرتے ہیں تدبیر یہ غم خوار عبث

یار تنہا ہے پھر ایسا نہیں ملنے کا وقت
شرم ہوتی ہے میری مانع گفتار عبث

اور بھی ان نے بیاںؔ ظلم کچھ افزود کیا
کیا اس شوخ سے تیں عشق کا اظہار عبث

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse