پوشیدہ جب ہو راز کہ منہ میں زباں نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوشیدہ جب ہو راز کہ منہ میں زباں نہ ہو
by داغ دہلوی

پوشیدہ جب ہو راز کہ منہ میں زباں نہ ہو
ہم بات بھی کریں تو بغیر از فغاں نہ ہو

لے جائیں آہ مجھ کو مری بدگمانیاں
ظالم وہاں کہ تیرا پتہ بھی جہاں نہ ہو

زاہد عذاب عشق صنم لطف حق سمجھ
یعنی عذاب ہم کو یہاں ہو وہاں نہ ہو

نیرنگی چمن جو مجھے یاد آ گئی
گل پر ہوا گمان کہ برگ خزاں نہ ہو

تم کو مزہ نہ دے گی کبھی داستان عشق
جب تک ہمارے منہ سے یہ قصہ بیاں نہ ہو

ناقہ کو قیس کیا نہ لگا لائے راہ پر
لیلی کا رازدار اگر سارباں نہ ہو

تہمت کسی کو ظلم کی اے داغؔ کیوں لگائیں
شکوہ بتوں سے کیا جو خدا مہرباں نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse