پلا ساقیا مئے خنک آب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پلا ساقیا مئے خنک آب میں
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

پلا ساقیا مئے خنک آب میں
کہ تھمتی نہیں توبہ مہتاب میں

گیا دین کیسا حضور نماز
وہ یاد آئے ابرو جو محراب میں

ملے کچھ تو زخم جگر کا مزہ
بجھا کر رکھا تیغ زہراب میں

الٰہی فلک جس سے پھٹ جائے دے
وہ تاثیر آہ جگر تاب میں

بلند آشیانوں پہ بجلی گری
جو نیچے تھے ڈوبے وہ سیلاب میں

وہ عریاں میں سرما میں تھی جن کی شب
گزرتی سمور اور سنجاب میں

نہ آئے ہوں آزردہ لینا خبر
پڑی دھوم یہ سارے پنجاب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse