پلا ساقیا ارغوانی شراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پلا ساقیا ارغوانی شراب
by امیر مینائی

پلا ساقیا ارغوانی شراب
کہ پیری میں دے نوجوانی شراب

وہ شعلہ ہے ساقی کہ رنجک کی طرح
اڑا دیتی ہے ناتوانی شراب

کہاں بادۂ عیش تقدیر میں
پیوں میں تو ہو جائے پانی شراب

نہ لایا ہے شیشہ نہ جام و سبو
پلاتا ہے ساقی زبانی شراب

کہاں عقل برنا کہاں عقل پیر
نئے سے ہے بہتر پرانی شراب

مرے چہرۂ زرد کے عکس سے
ہوئی ساقیا زعفرانی شراب

ہوئے مست دیکھا جو پھولوں کا رنگ
پیالوں میں تھی ارغوانی شراب

کہاں چشمۂ خضر کیسے خضر
خضر ہے مری زندگانی شراب

خضر ہوں اگر میں تو جا کر پیوں
سر چشمۂ زندگانی شراب

گلستاں ہے پھولوں سے کیا لال لال
چلے ساقیا ارغوانی شراب

عجب ساقیا گندمی رنگ ہے
کہ پرتو سے بنتی ہے دھانی شراب

رہے طاق پر پارسائی امیرؔ
پلائے جو وہ یار جانی شراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse