پشیمانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پشیمانی
by تصدق حسین خالد

موت کا راگ نفیری پہ بجاتی آٹھی
لو جھلستی ہوئی لو
آٹھی
بڑھی
ریت پہ جیسے دھواں اٹھتا ہو
سرسراہٹ سی درختوں میں ہوئی
پتے مرجھا گئے
گرنے لگے
وہ ان کے کھڑکنے کی صدا میرے خدا

لو کے ہم راہ بڑھے
موت کے ناچ کا نکلا تھا جلوس
چونک کر جاگ اٹھے صحن چمن میں طائر
آشیانوں سے جدائی انہیں منظور نہ تھی
سہم کر اٹھے اڑے اڑ کے وہیں آں گرے
ان کی اس آخری فریاد کی غم ناک صدا میرے خدا

اک گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جھکائے ہوئے سر
ہاتھ آنکھوں پہ رکھے
بیٹھی ہے غمگیں اداس مجبور
پہلو میں افسردہ خوشی کو لے
سانس رکنے لگا
خوں جمنے لگا
بے کلی ڈھونڈھتی پھرتی ہے پناہ
رینگتا رینگتا خوف آیا سسکتا ہوا سانپ
بے کلی کانپ اٹھی
خوف جھپٹ کر اٹھا بے کلی نزع میں تھی
مجھ کو بچا میرے خدا

تیرگی کانپی
فضا لرزی
کھلی کرنوں کی راہ
روحیں جو وسعت آفاق میں آوارہ سی تھیں
ڈھونڈھتی پھرتی تھیں منزل اپنی
پھڑپھڑائے ہوئے پر اپنے اٹھیں
اور ہواؤں میں بڑھیں
سامنے جنت گم گشتہ نظر آتی تھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse