پسے دل اس کی چتون پر ہزاروں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پسے دل اس کی چتون پر ہزاروں
by حیدر علی آتش

پسے دل اس کی چتون پر ہزاروں
موے بے ساختہ پن پر ہزاروں

مری ضد سے ہوا ہے مہرباں دوست
مرے احساں ہیں دشمن پر ہزاروں

براے شکر قاتل رونگٹوں سے
زبانیں ہیں مرے تن پر ہزاروں

نہ اٹکھیلی سے چل ہوتے ہیں صدمے
دل شیخ و برہمن پر ہزاروں

ہوا سر خم نہ زیر تیغ جلاد
رہے بوجھ اپنی گردن پر ہزاروں

ترے کشتہ ہیں ہم آنکھیں ملیں گے
ہمارے سنگ مدفن پر ہزاروں

نہ مل اے لعبت چین عطر گل زار
گلا کاٹیں گے گلشن پر ہزاروں

نہیں اک مرد کو دنیا سے مطلب
مریں نامرد اس زن پر ہزاروں

عجب کیا ہے اگر پروانے بے شمع
جلیں آتشؔ کے مدفن پر ہزاروں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse