پریم کی چوڑیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پریم کی چوڑیاں
by اعظم کریوی

نور پور گنگا جی کے کنارے الہ آباد کے ضلع میں ایک چھوٹا ساگاؤں ہے۔ پنڈت گردہاری لال اس گاؤں کے زمیندار تھے۔ راماشنگر ان کا اکلوتا لڑکا تھا۔ کھیتی باڑی میں بڑی برکت تھی۔ گھر میں غلہ کاانبار لگا رہتا تھا۔ کسی بات کی کمی نہ تھی۔ پنڈت رام لال کا لڑکا رام جیاون ذات کا برہمن تھا۔ کسی زمانہ میں اس کے خاندان میں بھی لکشمی دیوی کا راج تھا۔ لیکن غدر میں ان کا خاندان تباہ ہوگیا۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو وہ یتیم تھا۔ پنڈت گردہاری لال نے اس کی پرورش کی اور بڑے ہوتے ہی اپنے یہاں پیادوں میں نوکر رکھ لیا۔ رام جیاون بڑا کسرتی پہلوان تھا۔ گو اس کی عمر ۴۰ سال سے کچھ زیادہ ہوگئی تھی پھر بھی نور پورکا تو کیا ذکر آس پاس کے گاؤں میں بھی اس کی جوڑ کا کوئی دوسرا پہلوان نہ تھا۔ پنڈت گردہاری لال کے یہاں چار روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ ہرفصل پر دس بارہ من اناج بھی مل جاتا تھا۔ گھر میں ایک اچھی ذات کی گائے تھی اس کے لیے بھوسہ آسامیوں سے مل جاتا تھا۔ جب پنڈت رام جیاون اکھاڑے میں ڈنڈپیل کر صبح کو اپنی گائے کا تازہ دودھ پی کر لمبی پگڑی باندھے ہوئے اور الٰہ آبادی موٹی لاٹھی کندھے پر رکھ کر گاؤں میں آسامیوں سے لگان وصول کرنے چلتے تو رعب چھا جاتا جو کام کسی اور پیادہ سے نہ ہوتا تو اسے رام جیاون مہراج کے سپرد کیا جاتا۔ گھر میں ان کی بیوی درگا اور ایک لڑکی پریم پیاری کے سوا اور کوئی نہ تھا۔

رام شنکر اور پریم پیاری میں ایک سال کی چھوٹائی بڑائی تھی۔ راماشنکر کی پیدائش کے ایک سال کے بعد رام جیاون مہراج کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی تو راماشنکر کی ماں تییا نے لڑکی کا نام پریم پیاری رکھا۔ گاؤں میں ایسے نام کم رکھے جاتے ہیں لیکن زمینداروں کا نام رکھا ہوا کیسے بدلتا۔ پھر بھی رام پیاری کو لوگ پیار میں پریما کہنے لگے۔

راماشنکر اور پریما پچپن ہی سے ایک جگہ اٹھے بیٹھے کھیلے کودے اور گروجی کے یہاں ایک ساتھ پڑھے۔ بھلا ان میں محبت کیوں نہ ہوتی۔ صبح کے وقت خاک دھول میں لت پت ہوکر گھروندے بنانا دونوں کا ایک نہایت پرلطف کھیل تھا۔ نور پور کے پرفضا میدان میں گنگا جی کے کنارے گڑیوں کا میلہ لگتا تو گریاں اپنے سسرال جاتیں۔ پریما ہاتھ پاؤں میں مہندی رچاتی، اپنی گڑیوں کو گہنے کپڑے سے سجاکر بداکرتی۔ گنگاجی کے کنارے جاتی تو راما بھی ساتھ جاتا اور جب پریما اپنی خوبصورت گڑیوں کو پانی میں پھینکتی تو راما اپنی خوش رنگ نیم کی چھڑی سے پریما کی گریوں کو پیٹتا اور خوب خوش ہوتا۔ بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کھیل ہی کھیل میں دونوں میں لڑائی ہوئی کوسا کاٹا مارا پیٹا اور پھر تھوڑی دیر میں ملاپ ہوگیا۔ پریما کے روٹھنے پر راما اس کی دل جوئی کرتا اور جب راما بگڑتا تو پریما اس کو منا لیتی۔ اسی طرح ہنسی خوشی میں بچپن کا کھیل ختم ہوگیا اور دونوں نے بہار عمر کے سہانے سبزہ زار میں قدم رکھا۔ پنڈت گردہاری لال کے ایک چچیرے بھائی گلزاری لال الہ آباد میں وکیل تھے۔ انھیں کے پاس راما کو انگریزی پڑھنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ الہ آباد جانے سے پہلے جب راما پریما سے ملا تو پریما نے کہا۔ ’’راما۔ دیکھو الہ آباد جاکر مجھے بھول نہ جانا۔‘‘

’’پریما تیرا کدھر خیال ہے، میں تجھے بھول سکتا ہوں۔ میں جب الہ آباد سے آؤں گا تو تیرے لیے بڑی اچھی اچھی چیزیں لاؤں گا۔‘‘ الہ آباد سے کب آؤگے۔ ’’مہینہ میں ایک مرتبہ ضرور آؤنگا۔‘‘

جب راما رخصت ہونے لگا تو اس نے دیکھا کہ پریما کی کنول کی سی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ہیں اس نے کہا پریما تو روتی کیوں ہے۔ پریما نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے جلدی سے اپنے آنچل سے آنسو پونچھ ڈالے اور بغیر کچھ کہے سنے اپنے گھر کے اندر بھاگ گئی۔

راما جب نورپور ایسے چھوٹے گاؤں سے نکل کر الہ آباد ایسے بڑے شہر میں پہنچا تو اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ اپنے چچا کی عالیشان کوٹھی دیکھ کر راما کی نظر میں اپنے نور پور والے کچے مکان کی وقعت نہ رہ گئی۔ اس کا الہ آباد میں اتنا جی لگا کہ وہ عرصہ تک نور پور نہ گیا۔ اپنے نئے دوستوں سے مل کر وہ پریما کو بھول گیا۔ اس کے چچا نے اس کے لیے کوٹ پتلون اور انگریزی جوتہ بنوادیا۔ وہ فٹن پر سوار ہوکر شام کو خسروباغ کی سیر کرتا۔ ادھر تو راما شہر کی دلچسپیوں میں اپنی دیہاتی زندگی محو کیے تھا اور ادھر نور پور میں پریما اس کی یاد میں تڑپتی رہتی تھی۔ وہ روز شام کی ڈھلتی ہوئی چھاؤں میں اپنے گھر کے سامنے چبوترہ پر بیٹھ کر راما کی راہ دیکھا کرتی۔ بھنگ وار دھمنی کے چہچہوں سے جو قدرتی راگ پیدا ہوتا وہ ایک لمحہ بھر کے لیے بھی اس کو مسرور نہ کرسکتا۔ برسات کے موسم میں جب کالی کالی راتیں سر پر ہوتیں بجلی چمکتی بادل گرجتا۔ مور چنگہارتے۔ جھینگر الاپتے تو راما کی یاد میں پریما کی آنکھیں ساون بھادوں کی طرح جھڑیاں لگالیتیں۔

خدا خدا کرکے گرمیوں کی چھٹیوں میں پورے ایک سال کے بعد راما الہ آباد سے واپس ہوا۔ جس وقت وہ گاؤں میں پہنچا دن ڈوب رہا تھا اور بھینسیں چراگاہ سے واپس ہو رہی تھیں۔ سورج دیوتا کی سنہری شعاعوں میں گائیں رنگی ہوئی ایسی معلوم ہوتی تھیں جیسے گنگا جی میں چمکتے ہوئے تارے۔ گوالے ’’برہا‘‘ گاتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ کہیں کہیں پر چھوٹے چھوٹے بچے مٹی میں کھیل رہے تھے۔ گاؤں کی بہوئیں گھڑے لیے گنگاجی سے پانی بھرنے جارہی تھیں۔ ان میں سے ایک شوخ اور چنچل عورت نے گھونگھٹ کی اوٹ سے راما کو دیکھ کر اپنی ایک سہیلی سے کہا ’’اری! دیکھ تو یہ کون کرسٹان کا بچہ آگیا ہے‘‘ اس کی سہیلی نے غور سے راما کو دیکھ کر کہا ’’یہ تو راما ہے، کیا تو نہیں جانتی یہ ہمارے زمیندار کا لڑکا ہے۔‘‘ ارے یہ وہی راما ہے جو دھوتی کرتا پہنے گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا پھرتا تھا، میں نے بالکل نہیں پہچانا تھا اور پہچانتی کیسے آج تو یہ انگریزی کپڑے پہن کر آیا ہے۔‘‘

دیہاتی زندگی میں ایک برادرانہ انس ہوتا ہے جو شہری زندگی میں نہیں پایا جاتا۔ گاؤں کے چھوٹے بڑے، امیر و غریب سب اسی رشتہ میں بندھے رہتے ہیں۔ چنانچہ راما کے آنے کی خبر پاکر جگدیو لوہار، پھلی بنیا، رمضان جولاہہ، جگروا دھوبی، کالکا کاچھی، ادھین اہیر، رام جیاون مہاراج وغیرہ راما کو دیکھنے آئے اور دعا دے کر چلے گئے۔

گاؤں میں بیٹھ کر راما کو پریما کی یاد آئی۔ رات تو کسی طرح سے اس نے بسر کی لیکن صبح اٹھتے ہی وہ اس کے مکان پر پہنچا۔ رام جیاون گنگا اشنان کرنے گئے ہوئے تھے۔ درگا دھان کوٹ رہی تھی، راما نے کہا ’’موسی! پرنام۔‘‘

کون! راما! جیتے رہو بھیا، بھگوان تمہیں بنائے رکھیں، آؤ آؤ اچھے تو رہے، یہ کہتی ہوئی درگا نے آواز دی پریما! ارے او پریما۔ دیکھ تیرے راما بابو آئے ہیں۔ ان کو بیٹھنے کے لیے کچھ آسن تو دے۔ پریما چوکے میں دودھ گرم کر رہی تھی ماں کی آواز سن کر وہ جلدی سے اٹھی اور ایک کھٹولہ لاکر بچھا دیا۔ راما کو خیال تھا کہ پریما سامنے آتے ہی خوب گھل مل کر باتیں کرے گی۔ اس سے الہ آباد کاحال پوچھے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پریما بدن چرائے آنکھیں نیچی کیے ہوئے آئی اور کھٹولہ بچھاکر پھر چوکے میں واپس چلی گئی۔ راما نے درگا سے کہا، ’’موسی! پریما بھاگ کیوں گئی، مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتی۔‘‘

درگا نے چلاکر کہا پریما کہاں چلی گئی، ذرا ایک گلاس دودھ اور ملائی تو ڈال کر بھیا کو کھلادے (ہنس کر) پریما بڑی پگلی ہے تم کو جو سال بھر کے بعد دیکھا تو سامنےآتے ہوئے شرماتی ہے۔ دیہاتی لڑکیاں بڑی ناسمجھ ہوتی ہیں۔ راما ۔’’موسی میں بھی تو دیہاتی ہوں‘‘۔ درگا۔ بھیا تمہاری اور بات ہے تمہارا اور پریما کامقابلہ ہی کیا۔ تم پڑھے لکھے ہو، لیکن پریما تو بالکل گنوار ہے۔ بس وہی تمہارے ساتھ گروجی سے کچھ ہندی کتابیں پڑھی تھیں، کیا اتنے ہی سے وہ سمجھ دار ہوگئی۔ نہیں بھیا نہیں، وہ بڑی جاہل ہے۔ دیکھو نہ کئی مرتبہ پکار چکی ہوں لیکن ابھی تک دودھ لے کر نہیں آئی۔‘‘

راما نے اٹھ کر کہا، اچھا تو موسی میں خود ہی اس کے پاس جاتا ہوں۔ دیکھوں تو وہ مجھ سے کیوں نہیں بولتی ہے۔ یہ کہتا ہوا راما چوکے میں گھسا اور درگا ہنس ہنس کر لوٹ گئی۔ ’’ہاں بھیا ہاں تو ضرور پریما کو ٹھیک بنائے گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے درگا نے پھر اپنا موسل اٹھایااور دھان کوٹنے لگی۔ جب راما چوکے میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پریما ایک گلاس میں دودھ لیے ہوئے سرجھکائے چپ چاپ کھڑی ہے۔ راما نے ہنس کر کہا، اوہو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا مجھے پہچانتی ہی نہیں۔ کہو اچھی تو رہیں۔‘‘ پریما نے دودھ سے بھرا ہوا گلاس اور ایک لٹیا میں جل بھر کر راما کے سامنے رکھ دیا اور پھر دیوار کا سہارا لے کر ایک طرف کو چپ چاپ کھڑی ہوگئی۔ لیکن کن انکھیوں سے راما کو دیکھتی جاتی تھی۔ راما نے کہا ’’نہ نہ پریما اس طرح سے کام نہیں چلے گا، جب تک تم نہ بولوگی میں تمہارے یہاں کوئی چیز نہ کھاؤں گا۔ تھوڑی دیر انتظار کرکے جب راما نے دیکھا کہ اس کا بھی کوئی جواب پریما نے نہیں دیا تو اس نے اداس ہوکر کہا، اچھا پریما نہ بولو۔ جب تم میری بات کا جواب نہیں دیتیں تو میں اب جاتا ہوں۔ یہ کہتا ہوا راما اٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت لجائی ہوئی پریما نے ایک عجیب انداز سے کسمساکر دھیمی آواز میں کہا ’’ہائے راما۔ تم تو نہ جانے کیا کہتے ہو‘‘۔ راما کھلکھلاکر ہنس پڑا۔ پریما کی آواز نے اس کا غنچۂ دل کھلا دیا۔ اب اس نے دودھ پی لیا اور ہنستا ہوا چوکے سے باہر نکل کر کہنے لگا موسی، آخرکار میں نے پریما سے بات چیت کرہی لی۔ اس کی ضد میں نے توڑ دی۔ درگا نے خوش ہوکر کہا وہ تمہارے ساتھ بچپن سے کھیلتی آئی ہے کہاں تک شرماسکتی ہے۔

گھر سے باہر نکلتے ہوئے راما نے کہا ’’اوہو میں ایک بات بھول ہی گیا موسی، یہ دیکھو پریما کے لیے ایک جوڑہ چوڑیوں کا لایا ہوں۔ پریما کو دے دینا۔‘‘ چوڑیوں کو دیکھ کر درگا بہت خوش ہوئی۔ چوڑیاں تھیں تو کانچ کی لیکن اس قسم کی قیمتی اور خوبصورت چوڑیاں اس وقت تک گاؤں میں کسی کو نصیب نہ ہوئی تھیں۔

درگا کے بلانے پر پریما چوکے سے باہر نکلی۔ ’’دیکھ راما تیرے لیے کتنی خوبصورت چوڑیاں لایا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے درگا نے چوڑیاں پریما کی طرف بڑھائیں۔ پریما نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ان کو لیا اور دزدیدہ نگاہوں سے راما کی طرف دیکھا۔ زبان سے تو اس نے کچھ نہ کہا لیکن شرمیلی آنکھوں نے سوال کیا، کیوں جی! یہ چوڑیاں کانچ کی ہیں یا پریم کی؟‘‘ راما نے بھی اس کا مطلب سمجھ لیا اور اشاروں میں جواب دیا ’’یہ پریم کی چوڑیاں ہیں۔‘‘

آسمان نے کروٹ لی، زمین نے موسم پلٹے اور دیکھتے ہی دیکھتے ۵برس گزر گئے۔ اس دوران میں پنڈت گردہاری لال اور مہاراج رام جیاون بیکنٹھ سدھارے۔ راما اب ایک وجہیہ لحیم شحیم جوان تھا۔ اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور اس نے اپنی زمینداری کا کام سنبھالا۔ لین دین بہی کھاتہ اس کے ہاتھ میں آیا تو اس کے مزاج میں رعونت پیدا ہوگئی۔ سب نشوں سے زیادہ تیز زیادہ قاتل ثروت کا نشہ ہے۔ راما اس نشہ میں بیخود ہوگیا اور اپنے کاروبار میں اتنا منہمک ہوا کہ وہ لڑکپن کی محبت کو پریما کے پریم کو رام جیاون مہاراج کی وفاداری کو بالکل بھول گیا۔ اس نے ایک دن بھی بھولے سے بھی خبر نہ لی کہ یتیم پریما اور دکھیا درگا کی کیسی گزر رہی ہے۔

رام جیاون مہاراج کے کوئی جائداد تو تھی نہیں جس سے درگا کی چین سے بسر ہوتی۔ مہاراج کے مرنے پر دس بیس روپے گھر میں تھے وہ بھی انہیں کی کریا کرم میں ختم ہوگئے۔ صرف ایک گائے گھر میں تھی ماں بیٹی کی زندگی کااب ایک یہی سہارا تھا۔ اس کا دودھ بیچ کر ان کی بسراوقات ہوتی۔ کبھی کبھی فاقے بھی کرنا پڑتے۔ اسی حالت میں ایک دن درگا نے پریما سے کہا، ’’جی میں آتا ہے کہ اپنی مصیبت کا حال راما بابو سے جاکر کہوں، کیا وہ ایسی حالت میں ہماری مدد نہ کریں گے۔‘‘

پریما نے اداس ہوکر جواب دیا۔ ’’نہیں اماں ان کےپاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ کیوں؟ ’’جب ان کو خود خیال نہیں ہے تو ہمارے کہنے سے کیا ہوگا۔‘‘ ایک دن کہہ کر تو دیکھوں، مجھے تو پوری امید ہے کہ وہ ہماری غریبی پر رحم کریں گے۔ کیا تیرے باپ کا بھی ان کو کچھ خیال نہ ہوگا۔‘‘ مہاراج کا ذکر کرتے ہوئے دونوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ تھوڑی دیر تک دونوں خوب جی بھر کے روئیں جب کچھ جی ہلکا ہوا تو درگا نے کہا ’’بیٹی تو سچ کہتی ہے میں کسی کے پاس نہ جاؤں گی۔ جب ان کے جیتے جی میں نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے، تو اب ان کے مرنے پر بھیک مانگ کر ان کی آتما کو دکھ نہ پہنچاؤں گی۔‘‘ اس کے بعد پھر دونوں میں اس قسم کی باتیں کبھی نہیں ہوئیں۔ ایک مرتبہ راما کی ماں تلسی نے درگا کو اناج بھیجا بھی لیکن اس نے لینے سے انکار کردیا۔

سال بھر تک جس طرح بھی ہوسکا درگا نے دن کاٹے۔ پھٹے پرانے کپڑوں کو سی کر کسی طرح کام چلایا لیکن برسات میں ایک نئی مصیبت آئی۔ ان کاگھر چھایا نہ گیا تھا، برسات میں کئی دن تک موسلا دھار پانی برسا تو ان کے مکان کا ایک حصہ گر پڑا۔ گائے وہاں بندھی ہوئی تھی، دب کر مرگئی۔ اس نئی مصیبت نے اِن پریشانیوں میں اور اضافہ کردیا۔ گھر میں دوچار چاندی کے جو زیور تھے وہ بھی بک گئے۔ پریما نے راما کی دی ہوئی چوڑیاں ایک کپڑے میں باندھ کر ٹپاری میں رکھ دی تھیں۔ راما کی یہی ایک یادگار تھی۔ پریما نے سوچا کہ اگر وہ اِن کو پہنے رہے گی تو ٹوٹ جائیں گی۔ فکر معاش بڑی بری بلا ہے۔درگا اب کھیتوں اور چراگاہوں سے گوبر اٹھالاتی، پریما اپلے تھاپتی اور درگاگاؤں میں بیچ لاتی۔ کبھی گوبر نہ ملتا تو اور مصیبت ہوتی۔ کبھی کوئی اپلے چرالے جاتا تو فاقے کرنے پڑتے۔ دنیا کا بھی عجیب حال ہے۔ کوئی ہنس رہا ہے کوئی رو رہا ہے۔ کسی کا گھر بھرا ہوا ہے کھانے والے نہیں، کوئی رو رو کر زندگی کاٹتا ہے لیکن اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

راما کی بیسویں سالگرہ کا دن تھا۔ دروازہ پر مردوں اور گھر میں عورتوں کا ہجوم تھا۔ ایک طرف گھی کی اور دوسری طرف تیل کی پوریاں پک رہی تھیں۔ گھی کی معزز موٹے برہمنوں کے لیے، تیل کی فاقہ کش نیچوں کے لیے۔ راما کا گھر سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ عورتیں سہانے گیت گارہی تھیں۔ بچے خوش ہو ہو کر دوڑتے پھر رہے تھے۔ مالن پھولوں کا گجرا کیلے کی شاخیں لائی۔ کمہار نئے نئے چراغ لائے اور ہانڈیا دے گئے۔ باری سرسبز ڈھاک کے پتل اور دونے دیے گئے۔ کمہار نے آکر کلسہ میں پانی بھرا۔ بڑھئی نے راما کے لیے نئی پیڑھی بنائی۔ نائن نے آنگن لیپا اور چوک بنائی۔ راما جب نہادھوکر اپنے نئے کپڑے پہن کر تیار ہوگیا تو ایک پنڈت جی کھڑاؤں کھٹ پٹ کرتے براجمان ہوئے۔ راما کو پیڑھی پر کھڑا کرکے اشلوک پڑھا، ایک کچا دھاگا سر سے پاؤں تک ناپ کر بیسویں گرہ لگائی۔ تل ملاہوا کچا دودھ پلایا۔ ماتھے پر تلک لگاکر گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کر آشیرواد دی۔ پنڈت جی بھلا چوک سے خالی ہاتھ کیسے اٹھتے۔ ان کا پیٹ بہت بڑا اور خوب پھولا ہوا تھا۔ تلسی نے بھی اس موقع پر پنڈت جی کو خوب ’’دچھنا‘‘ دی اور پنڈت جی ہنسی خوشی گھر سے رخصت ہوئے۔ ان کے بعد نائی، دھوبی، بھاٹ، کمہار، مالی وغیرہ کی باری آئی اور ان کو بھی انعام سے خوش کردیا گیا۔ غرض اس دن نور پور میں سوائے درگا اور پریما کے کوئی اور راما کی چشم عنایت سے محروم نہ رہا۔

ادھر تو جشن کا یہ سامان تھا اور ادھر غریب درگا کے یہاں فاقہ تھا، کیونکہ ثروت کے نشہ میں سرشار زمیندار اپنے اس غریب آسامی کو نیوتہ دینا بھول گیا تھا۔ شام کو جب سب لوگ کھاپی کر چلے گئے تو اتفاقاً پریما کی یاد آئی اور اس نے اپنی ماں سے جاکر پوچھا ماں جی کیا رام جیاون مہاراج کے یہاں سے کوئی نہیں آیا تھا۔ تلسی ’’نہیں تو۔ کیا تم نے ان کو نیوتہ نہیں دیا تھا۔‘‘

راما۔ کیا وہ بغیر نیوتہ کے نہیں آسکتی تھیں۔ وہ ہمارے آسامی ہیں۔

تلسی۔ اسامی ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ مہاراج کے گھر کی اکڑ تو سارے گاؤں میں مشہور ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے میں نے دو من اناج بھیجا تھا، لیکن درگا نے واپس کردیا۔ وہ عورت اپنے کو نہ جانے کیا سمجھتی ہے۔ جب تک مہاراج زندہ رہے ان کا آناجانا رہا، ان کے مرتے ہی اس نے میرے یہاں آنا چھوڑ دیا۔ بھلا بغیر نیوتہ وہ ہمارے یہاں کیوں آنے لگی۔

راما چپ چاپ اپنی ماں کی باتیں سنتا رہا۔ اس کے بعد بولا۔ خیر درگا نہیں آئی تو اس سے ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ مجھے ایک تھالی میں کچھ سیدھا دے دو میں اس کو جاکر دے آؤں۔

تلسی۔ جب تمہاری یہی مرضی ہے تو میں کل سیدھا کسی کے ہاتھ بھجوا دوں گی۔ تمہارے جانے کی وہاں کیا ضرورت ہے۔ لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے، تم خود سیدھا لے کر جاؤگے تو درگا کے اور مزاج بڑھ جائیں گے۔

لیکن راما نے ماں کا کہنا نہ مانا ۔ اس وقت اس کے سامنے اس کا گذرا ہوا زمانہ تھا۔ پریما کی بچپن کی بے لوث محبت اس کے دل میں چٹکیاں لے رہی تھیں۔ اس نے تلسی سے سیدھے کی تھالی منگوائی اور اسی وقت درگا کے دروازہ پر پہنچ کر آواز دی۔ درگا نے دروازہ کھول کر کہا۔ کون؟ رامانے جواب دیا ’’میں ہوں راما!‘‘

’’ہمارے دھن بھاگ آئیے اندر آئیے،کہیے آج اس طرف مالک کیسے بھول کر آگئے۔‘‘ راما کے دل پر چوٹ سی لگی، اس نے شرمندہ ہوکر کہا ’’ایشور جانتا ہے کہ گھر کے کاروبار میں ایسا پھنسا رہتا ہوں کہ کسی وقت فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘ اس کاکچھ جواب نہ دے کر درگا نے پریما کو آواز دی۔ بیٹی ذرادیا جلادے۔ مالک اندھیرے میں کھڑے ہیں۔ پریما ایک طرف کونے میں میلی کچیلی دھوتی اوڑھے پڑی تھی۔ آج اس کی طبیعت کچھ خراب تھی۔ ماں کی آواز سن کر وہ اٹھی اور آہستہ سے کہا ’’ماں جی دیا میں تیل نہیں ہے۔‘‘ اس کی آواز میں حسرت بھری تھی، گو پریما کو راما نے نہ دیکھا لیکن اس کی آواز سن لی اور کہا ’’دیا جلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں اب جارہا ہوں۔ ماں جی نے تمہارے لیے اس تھالی میں کچھ بھیجا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر راما نے تھالی بڑھائی۔ لیکن درگا پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے اپنے کو سنبھال کر کہا ’’مالک ہم اس کے بھوکے نہیں ہیں۔‘‘ یہ سوکھا جواب سن کر راما سناٹے میں آگیا۔ غریبوں میں بھی خودداری کا مادہ ہوتا ہے، یہ اس کو معلوم نہ تھا۔

ایک غریب برہمنی نے اس کو ذلیل کیا۔ اس کا اس کو سخت صدمہ ہوا۔ اور وہ سیدھے کی تھالی لے کر درگا کے گھر سے نکل کر اپنے گھر واپس آگیا۔ راما کے جانے کے بعد پریما نے اپنی ماں سے کہا ’’معلوم ہوتا ہے بابو جی ناراض ہوگئے ہیں۔‘‘ درگا نے جواب دیا۔ ’’بھگوان راضی رہیں کسی کی ناراضگی کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔‘‘

پریما اب انیسویں سال میں تھی۔ اس کی جوانی کا چاند بڑی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ حسن و رعنائی کی تمام خوبیاں قدرت نے فیاضی سے پریما کوعطا کی تھیں۔ اس کے انداز میں بھولا پن آواز میں نغمہ کی دل فریبی، آنکھوں میں حیا اور خیالات میں پاکیزگی تھی۔ لیکن ان سب خوبیوں کے ہوتے ہوئے بھی اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ غریب کی جوانی جاڑوں کی چاندنی تھی، کوئی قدردان نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک غریب برہمن کی لڑکی تھی۔ دان ’’دہیز‘‘ دینے کے لیے درگا کے پاس کچھ نہ تھا۔ جوان جہان لڑکی کو دیکھ کر اس کے گلے میں پانی نہ اترتا تھا۔ دوچار جگہ اس نے نسبت کا پیام بھی دیا لیکن کوئی دوسو سے کم دان لینے پر راضی نہ ہوا۔ دو سوروپیہ توبہت ہوتے ہیں۔ گھر میں اتنے کھپریل بھی نہ رہے ہوں گے۔ درگا گاؤں میں جس طرف نکلتی لوگ اس کو سنا سنا کر کہتے، جوان لڑکی گھر میں بٹھا رکھی ہے۔ بیاہ نہیں کرتی۔ نہ جانے کیا ارادہ ہے۔ درگا لوگوں کے طعنے سن کرشرم کے مارے پانی پانی ہوجاتی۔ اس لیے گاؤں میں اپلے بیچنا بند کردیے۔ ایک دوسرے گاؤں میں اپلے جاکر بیچنے لگی۔ وہاں بھی کچھ دنوں بعد لوگوں نے درگا کو دق کرنا شروع کردیا۔ بیچاری کی جان بڑی مصحبت میں تھی۔ کبھی سوچتی گنگاجی میں ڈوب کر اپنی جان دے دے، لیکن جب پریما کا خیال آتا تو اپنے ارادہ سے باز آجاتی۔ اب درگا دن رات اسی فکر میں رنجیدہ رہنے لگی۔ بسااوقات وہ پریما پر بھی خواہ مخواہ خفا ہوجاتی۔ ذرا سی بات پر جھڑک دیتی۔ اس پر اگر پریما رونے لگتی تو خود بھی اس کے ساتھ روتی۔ ایک دوسرے کے دل کا حال جانتی تھی لیکن زبان پر نہ لاسکتی تھی۔ اس طرح دن گزر رہے تھے۔ ایک دن درگا کی ایک سہیلی گورا اس سے ملنے آئی تو اس نے کہا ’’جیجی پریما کا بیاہ کب کروگی، لڑکی بہت سیانی ہوگئی ہے، اس کو کنواری بیٹھا رکھنا بڑے شرم کی بات ہے۔ گاؤں بھر میں تمہاری بڑی بدنامی ہو رہی ہے۔‘‘ درگانے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا بہن کیا بتاؤں بہت تلاش کرنے پر بھی اب تک کوئی بر نہیں ملا۔

گورا: یہ تو مجھے بھی معلوم ہے لیکن خاموش رہنے سے تو کام نہ چلے گا۔ میرے خیال میں تم کو اب دیری نہیں کرنی چاہیے۔

درگا: بہن تمہیں پریما کو کہیں ٹھکانے سے لگادو، بڑی کرپا ہوگی۔

گورا نے کہا، ’’اچھا میں دیکھوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر گورا چلی گئی۔ دو چار دن بعد وہ پھر آئی ۔ اس نے آتے ہی درگا سے کہا ’’جیجی مٹھائی کھلاؤ میں نے پریما کے لیے بَر ڈھونڈ لیا ہے۔‘‘ درگا نے خوش ہو کر کہا، کہاں؟

گورا: مہاراج بنسی دھر کو تو جانتی ہو۔

درگا: وہی نا جو امرچھ میں رہتے ہیں۔

گورا: ہاں ہاں وہی وہی۔

درگا: ان کی تو عمر بہت زیادہ ہے۔ وہ اب شادی کیوں کر رہے ہیں۔

گورا: عمر ضرور زیادہ ہے لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔ وہ مرد ہیں۔ ان کی عمر کا کون خیال کرتا ہے۔ ان کی جتنی عمر ہے اس عمر میں تو بہت سے لوگ بیاہ کرتے ہیں۔ اور جیجی برا نہ مانو تو کہوں تمہاری لڑکی بھی بہت سیانی ہے۔ بَر بالکل چھوکرا ہونے سے بھی تو کام نہیں چلے گا۔ میرا کہنا مانو تم اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ بڑے امیر ہیں۔ بیس پچیس بیگھے موروثی کاشتکاری ہے۔ تالاب باغ سب ہی کچھ تو ہے اور سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ وہ کچھ دان ’’دہیز‘‘ بھی نہ لیں گے۔ کہو منظور ہے کہ نہیں۔

درگا بنسی دہر کے ساتھ پریما کا بیاہ کرنے کے لیے کبھی راضی نہ ہوتی لیکن جب اس نے سُنا کہ دان ’’دہیز‘‘ بھی نہ دینا پڑے گا تو وہ مجبوراً راضی ہوگئی۔

گورا: ایک بات اور ہے وہ یہ کہ کل کچھ عورتیں مہاراج بنسی دہر کے یہاں سے پریما کو دیکھنے آئیں گے۔

درگا: بہن ایسا تو میرے یہاں کبھی نہیں ہوا۔ میرا میکہ کھاگا میں ہے۔ وہاں جب تک بیاہ نہیں ہولیتا سسرال والے لڑکی کو نہیں دیکھ سکتے۔

گورا: خیر تم ایک کام کرو۔ کل سویرے پریما کونہلاکر صاف کپڑے پہنادینا۔ امرچھ سے جب عورتیں میرے یہاں آئیں گی میں کسی بہانے سے پریما کو اپنےگھر بلالے جاؤں گی۔ اس طرح وہ پریما کو دیکھ لیں گی، اس میں کوئی ہرج نہ ہوگا۔ درگا نےخوش ہوکر کہا ’’ہاں یہ ترکیب تو ٹھیک ہے۔‘‘

اچھا تو اب میں جاتی ہوں۔ یہ کہہ کر گورا اپنے گھر چلی گئی۔ درگا آج بہت خوش تھی۔ اس نے اپنی پٹاری کھول کر ایک پھٹی پرانی دھوتی اور شلوکا نکال کر دھویا اور اس کی مرمت کردی۔ صبح گورا سے یہ سب باتیں ہوئیں اور شام تک گاؤں بھر میں اس کی خبر ہوگئی۔ جس کسی نے بھی سنا کہ درگا اپنی پھول سی لڑکی کابیاہ بوڑھے کھوسٹ بنسی دہر سے کرنے والی ہے اس نے افسوس کیا۔ لیکن درگا نے کسی کے کہنے سننے کی کچھ پرواہ نہ کی۔ اس کو اس کے سوائے کچھ خیال ہی نہ تھا کہ جس طرح بھی ہو پریما کا بیاہ ہوجائے اور دان ’’دہیز‘‘ نہ دینا پڑے۔ بدنامی ہوگی تو کیا اپنے فرض سے سبکدوش تو ہوجائے گی۔ پریما سے بھی کوئی بات چھپی نہ رہی۔ سب کچھ جان بوجھ کر بھی وہ کہہ ہی کیا سکتی تھی۔ وہ درد سر کا بہانہ کرکے شام سے لیٹ رہی اور چپکے چپکے ساری رات آنسو بہاتی رہی۔

صبح کاذب کا وقت تھا۔ چاند دھندلی دھندلی روشنی ڈال رہا تھا۔ درگا نے پریما کو بلاکر کہا ’’بیٹا جلدی سے اٹھ اور گنگامائی میں اشنان کر آ۔ لے یہ شلوکا اور دھوتی اس کو نہاکر پہن لینا۔ ہاں خوب یاد آیا ذرا ٹھہر جا۔‘‘ درگا نے اپنی پٹاری کھولی اور اس میں سے راما کی دی ہوئی کانچ کی چوڑیاں نکالیں اور بولی ’’تیرے بدن پر کوئی زیور نہیں ہے، میں اب تجھے بنوادوں گی۔ آج تو یہ چوڑیاں پہن لے۔ یہ بھی بہت خوبصورت اور قیمتی ہیں۔‘‘ پریما اب تک خاموش سرجھکائے بیٹھی تھی، چوڑیوں کو دیکھ کر یکبارگی چلا اٹھی۔ ’’نہیں ماں نہیں میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں، میں ان چوڑیوں کو نہیں پہنوں گی۔‘‘ درگا نے ڈانٹ کر کہا ’’پہنے گی کیسے نہیں، بس تجھ میں یہی تو ایک بڑا عیب ہے کہ کہنا نہیں مانتی۔‘‘ یہ کہہ کر درگا نے زبردستی چوڑیاں پہنادیں۔ پریما کو نہانےکے لیے بھیج کر آپ کسی دوسرے کام میں لگ گئی۔ آج ہی امرچھ سے عورتیں پریما کو دیکھنے آئیں گی۔ درگا کو جلدی تھی، جس قدر جلد ممکن ہو پریما نہادھوکر فارغ ہوجائے۔ پریما جب گھر سے نکلی تو اس وقت بھی اندھیرا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ کچھ سوچتی ہوئی دریا کے کنارے پہنچی۔ ستاروں کی مدھم روشنی کے عکس سے دریا کا بعض بعض حصہ سانپ کی کیچلی کی طرح جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا۔ تمام دنیا سنسان تھی۔ دریا کے کنارے پریما نے دھوتی اور شلوکا ایک طرف پھینک دیا۔ گنگامائی کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور بولی ’’ماتا! میں نے کون سا پاپ کیا ہے جو سب کی آنکھوں میں کانٹا بن رہی ہوں۔ کیا میرے لیے دنیا میں کہیں ٹھکانا نہیں ہے جو میری ماں مجھے آگ میں جھونکنےکے لیے تیار ہوگئی۔ ماتا! میرے دل میں جس کی محبت بچپن سے تھی وہی میرا نہ ہوا تو اب دنیا میں مجھے کسی سے کچھ امید نہیں ہے۔

ماتا! کیا تم بتاسکتی ہو کہ راما نے مجھے کیوں بھلادیا۔ ماتا! تم جواب کیوں نہیں دیتی ہو۔ اچھا میں سمجھ گئی تم کہتی ہو کہ ان کا نام جپو۔ لیکن میں تو ان کانام آج سے نہیں بلکہ بالے پن سے جپتی رہی ہوں۔ پھر بھی وہ میرے نہیں ہوئے۔ ماں! میں دھرتی ماتا کی پیٹھ کا بوجھ ہو رہی ہوں، تم اِس دکھیا کو اپنی گود میں چھپا لو۔ میں تمہارے سرن میں آتی ہوں۔‘‘ پریما کی فریاد سن کر چاند کی تھرکتی ہوئی کرنیں بالو پر لوٹنے لگیں اور گنگا مائی کی لہریں اپنا سرٹپکنے لگیں۔ پریما آگے بڑھی پھر کچھ سوچ کر رُکی اور اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں اتار ڈالیں اور یہ کہہ کر ’’میں تو پریم کی چوڑیاں پہنے ہوئے ہوں، ان کانچ کی چوڑیوں کی ضرورت نہیں۔‘‘ ان کو توڑ کر ایک طرف زمین پر پھینک دیا۔ جن چوڑیوں کو وہ کبھی اپنے جان و دل سے بھی زیادہ عزیز سمجھتی تھی انھیں چوڑیوں کو آج اس نے خود اپنے ہاتھوں سے توڑڈالا اور پانی میں ایک قدم بڑھایا۔ ٹھیک اسی وقت کسی کی آواز سنائی دی۔

’’پریما! پریما! ٹھہرو۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ مجھ سے بھول ہوئی تم مجھے معاف کردو۔ تم میری غلطی کی سزا تمہارا جو جی چاہے دے سکتی ہو لیکن جو کچھ تم کرنے جارہی ہو یہ سزا میرے لیے ناقابل برداشت ہوگی۔ پریما زور اور طاقت سے کانچ کی چوڑیاں توڑی جاسکتی ہیں لیکن پریم کا بندھن پریم کی چوڑیوں کاتعلق کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اس کے توڑنے کی طاقت نہ تم میں ہے اور نہ مجھ میں ہے۔ پریما جو میں نہیں کرسکا اس کو تم بھی نہ کرسکتیں۔‘‘ یہ راما کی آواز تھی جو اتفاقاً اس وقت گنگا اشنان کرنے کے لیے وہاں آگیا تھا۔ اس نے پریما کی فریاد سنی۔ پریما کاخوب صورت چہرہ دیکھا، پریم کی چوڑیاں توڑتے اور ان کو پھینکتے دیکھا، اس نے آگے بڑھ کر ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کواٹھالیا۔ ثابت رہنےپر بھی جن کی اس نے کبھی قدر نہ کی تھی معمولی کانچ کی چوڑیاں آج ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اس کے دل پر تیر ونشتر کا کام کرگئیں۔ دل کی گہرائیوں میں خوابیدہ محبت نے ایک کروٹ لی۔ بچپن کی محبت نے زور مارا وار قبل اس کے کہ پریما اپنی چاند سی صورت کو گنگا مائی کی لہروں میں چھپالے، راما نے پھرتی کے ساتھ آگے بڑھ کر پریما کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پانی سے باہر نکال لیا۔ جس طرح ہوا کے جھونکے سے درخت کاایک ایک پتہ کانپنے لگتا ہے اسی طرح راما نے جب پریما کی بانہہ پکڑی تو جوشِ محبت سے پریما کا ایک ایک عضو کانپ اٹھا اور وہ راما کے چرنوں میں جھک گئی۔ محبت کے آنسو دونوں کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔ اس وقت باد سحر مستی سے جھومنے لگی، تارے غائب ہوگئے اور صبح ہوگئی۔ رنج و غم کا کہیں نشان بھی نہ رہا۔

کچھ دنوں کے بعداچھی ساعت میں راما نے پریما کے ساتھ بڑی دھوم دھام کے ساتھ بیاہ کیا۔ درگا اس مبارک شادی کے بعد بھی کئی سال تک زندہ رہی لیکن اس وضع دار اور آن پر مرنے والی عورت نے اپنی جھونپڑی چھوڑ کر داماد کے یہاں رہنا کبھی گوارا نہ کیا۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse