پرچھائیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پرچھائیاں
by مختار صدیقی

کیوں نہ اب تم سے تصور میں کروں بات سنو تم سے یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو گی نہیں میں وجہ سخن جان گئی
یاد سے تیری ہی معمور ہیں دن رات یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو گی کہ میں ہستی کو کفن مان گئی
راہ الفت میں کبھی ہوگا ترا ساتھ یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو گی میں زمانے کا چلن جان گئی
کون بدلے گا یہ حالات یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو گی میں انہیں دار و رسن مان گئی
زندگی یہ ہے تو مرنا بھی ہے بارات یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو گی کہ یہ میں سوختہ تن جان گئی

میں زمانے کے ہوں آئین کا پابند یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو دیکھو کہ یہ مرگ ابد ہے کہ نہیں
ہاں میں اس پہ ہوں رضامند یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو جور زماں کی کوئی حد ہے کہ نہیں
مجھ پہ ہر راہ ہوئی بند یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو زندہ گرفتار لحد ہے کہ نہیں
ہاں گرفتار ہوں دو چند یہ کہنا ہے مجھے
تم کہو نعمت ہستی سے یہ کد ہے کہ نہیں

تم میری زیست کے ویرانے میں پرتو ہو خیابانوں کا
میں تو صرصر ہوں کہ ویرانوں سے کیا میل خیابانوں کے
تم تو ہو نغمۂ شب تاب مرے اجڑے شبستانوں کا
میں تو شیون ہوں کہ شیون ہیں نشاں ایسے شبستانوں کے
تم نیا روپ رچاؤ نیا سنگار ہو میرے نئے ارمانوں کا
میں تو ہوں خون تمنا کہ سدا خون ہوا کرتے ہیں ارمانوں کے
تم تو امرت ہو ملالوں کے الاؤ میں جلی جانوں کا
میں نہیں راکھ بھی کیا اور نشاں ہوں گے ملالوں سے جلی جانوں کے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse