پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا
by نظم طباطبائی

پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا
لے خون میں نے بخشا تو یاد کیا کرے گا

ہوں دام میں پر افشاں اور سادگی سے حیراں
کیوں تیز کی ہیں چھریاں صیاد کیا کرے گا

ظالم یہ سوچ کر اب دیتا ہے بوسۂ لب
جب ہونٹ سی دیئے پھر فریاد کیا کرے گا

زنجیر تار داماں ہے طوق اک گریباں
زور جنوں نہ کم ہو حداد کیا کرے گا

ہم ڈوب کر مریں گے حسرت رہے گی تجھ کو
جب خاک ہی نہ ہوگی برباد کیا کرے گا

یعقوب قطع کر دیں امید وصل دل سے
یوسف سا بندہ کوئی آزاد کیا کرے گا

دل لے کے پوچھتا ہے تو کس کا شیفتہ ہے
بھولا ابھی سے ظالم پھر یاد کیا کرے گا

اے خط بیاض عارض درکار ہے جو تجھ کو
تحریر حسن کی کچھ روداد کیا کرے گا

کنج قفس سے اک دن ہوگی رہائی اپنی
مر جائیں گے تو آخر صیاد کیا کرے گا

مثل سپند دل ہے بیتاب سوز غم میں
رہ جائے گا تڑپ کر فریاد کیا کرے گا

اے شیخ بھر گیا ہے کیوں وعظ کی ہوا میں
ریش سفید اپنی برباد کیا کرے گا

ظلم و ستم سے بھی اب ظالم نے ہاتھ کھینچا
اس سے ستم وہ بڑھ کر ایجاد کیا کرے گا

ازبسکہ بے ہنر ہوں میں ننگ معترض ہوں
مضموں پہ میرے کوئی ایراد کیا کرے گا

اے نظمؔ جس کو چاہے وہ دے بہشت دوزخ
نمرود کیا کرے گا شداد کیا کرے گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse