پردے پردے میں یہ کر لیتی ہیں راہیں کیوں کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردے پردے میں یہ کر لیتی ہیں راہیں کیوں کر
by ریاض خیرآبادی

پردے پردے میں یہ کر لیتی ہیں راہیں کیوں کر
پار ہو جاتی ہیں سینے کی نگاہیں کیوں کر

دل میں آنے کی نکل آتی ہیں راہیں کیوں کر
اوپر اٹھ جاتی ہیں وہ نیچی نگاہیں کیوں کر

کر لیا کرتے تھے دل کھول کے آہیں کیوں کر
اب یہ رونا ہے کراہیں تو کراہیں کیوں کر

گدگدانے نہیں آتی ہیں سر بام تمہیں
عرش پر کھیلتی ہیں جا کے یہ آہیں کیوں کر

نکلیں گھونگھٹ میں یہ مژگاں کے جو نکلیں بھی کبھی
شوخ ہو جاتی ہیں شرمیلی نگاہیں کیوں کر

تو بھی جانے کہ ملا چاہنے والا تجھ کو
تو بتا دے ترے صدقے تجھے چاہیں کیوں کر

کیا خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
کہ دم سرد بنا کرتی ہے آہیں کیوں کر

طور والو سے لب بام ہیں آنے والے
دیکھیں لڑتی ہیں نگاہوں سے نگاہیں کیوں کر

شوق ادھر شرم ادھر بات نئی رات نئی
دیکھیں ملتی ہیں نگاہوں سے نگاہیں کیوں کر

یہ امنگیں یہ ترنگیں یہ جوانی یہ شباب
توبہ کر کے یہ بتاؤ کہ نباہیں کیوں کر

شرم کے پتلے کو آ جاتی ہے کیوں کر شوخی
بجلیاں بنتی ہیں شرمیلی نگاہیں کیوں کر

ہم ریاضؔ اوروں سے خوددار سوا ہیں لیکن
رہ کے معشوقوں میں ہم وضع نباہیں کیوں کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse