پردے پردے میں بہت مجھ پہ ترے وار چلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردے پردے میں بہت مجھ پہ ترے وار چلے
by مبارک عظیم آبادی

پردے پردے میں بہت مجھ پہ ترے وار چلے
صاف اب حلق پہ خنجر چلے تلوار چلے

دورئ منزل مقصد کوئی ہم سے پوچھے
بیٹھے سو بار ہم اس راہ میں سو بار چلے

کون پامال ہوا اس کی بلا دیکھتی ہے
دیکھتا اپنی ہی جو شوخیٔ رفتار چلے

بے پیے چلتا ہے یوں جھوم کے وہ مست شباب
جس طرح پی کے کوئی رند قدح خوار چلے

چشم و ابرو کی یہ سازش جگر و دل کو نوید
ایک کا تیر چلے ایک کی تلوار چلے

کچھ اس انداز سے صیاد نے آزاد کیا
جو چلے چھٹ کے قفس سے وہ گرفتار چلے

جس کو رہنا ہو رہے قیدئ زنداں ہو کر
ہم تو اے ہم نفسو پھاند کے دیوار چلے

پھر مبارکؔ وہی گھنگھور گھٹائیں آئیں
جانب مے کدہ پھر رند قدح خوار چلے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse