پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
by بیدم وارثی

پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ہے سنگ در بھی ہے

جل گئی شاخ آشیاں مٹ گیا تیرا گلستاں
بلبل خانماں خراب اب کہیں تیرا گھر بھی ہے

اب نہ وہ شام شام ہے اپنی نہ وہ سحر سحر
ہونے کو یوں تو روز ہی شام بھی ہے سحر بھی ہے

چاہے جسے بنائیے اپنا نشانۂ نظر
زد پہ تمہارے تیر کے دل بھی ہے اور جگر بھی ہے

دن کو اسی سے روشنی شب کو اسی سے چاندنی
سچ تو یہ ہے کہ روئے یار شمس بھی ہے قمر بھی ہے

زلف بہ دوش بے نقاب گھر سے نکل کھڑے ہوئے
اب تو سمجھ گئے حضور نالوں میں کچھ اثر بھی ہے

بیدمؔ خستہ کا مزار آپ تو چل کے دیکھیے
شمع بنا ہے داغ دل بیکسی نوحہ گر بھی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse