پردۂ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردۂ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے
by شکیب جلالی

پردۂ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر تیرہ و تار ہو گئے

ایک ہمیں ہی اے سحر نیند نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کے سر سارے چراغ سو گئے

راہ میں تھے ببول بھی رود شرر بھی دھول بھی
جانا ہمیں ضرور تھا گل کے طواف کو گئے

دیدہ ورو بتائیں کیا تم کو یقیں نہ آئے گا
چہرے تھے جن کے چاند سے سینے میں داغ بو گئے

داغ شکست دوستو دیکھو کسے نصیب ہو
بیٹھے ہوئے ہیں تیز رو سست خرام تو گئے

اہل جنوں کے دل شکیبؔ نرم تھے موم کی طرح
تیشۂ یاس جب چلا تودۂ سنگ ہو گئے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse