پردہ کس امر کا ہے اب اس بد نصیب سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردہ کس امر کا ہے اب اس بد نصیب سے
by ریاض خیرآبادی

پردہ کس امر کا ہے اب اس بد نصیب سے
کہئے تو بات رات کی کہہ دوں رقیب سے

دیکھے جو دل کے داغ تو بولے رقیب سے
ملتے ہیں ایسے چاند کے ٹکڑے نصیب سے

چہلیں ہیں مجھ غریب سے چھیڑیں رقیب سے
پڑتا ہے کام دیکھیے کس خوش نصیب سے

اس مرتبہ جنوں میں یہی مشغلہ رہا
دے دے کے پھول داغ لیے عندلیب سے

تم ہو کلیم دیکھنے والوں میں دور کے
لوٹے ہیں ہم نے یار کے جلوے قریب سے

اچھے ہیں اک جہان سے اس کے مریض عشق
ان کو دوا سے کام نہ مطلب طبیب سے

کم بخت کی زبان سے نکلی ہے کوئی بات
کلیاں ہیں منہ پھلائے ہوئے عندلیب سے

واعظ تری بہشت کا ہم جانتے ہیں حال
دلچسپیاں بڑھا نہ بیان عجیب سے

جو بد مزاج دے نہ تسلی مریض کو
اچھا ہے اشتداد مرض اس طبیب سے

کانٹوں کے بدلے پھول چنے کس نے اے جنوں
سن آئے ہیں چمن میں وہ کچھ عندلیب سے

کافر ترے سوا جو کسی کی ہو آرزو
ہم دور ہوں خدا سے خدا کے حبیب سے

اس ضعف میں یہ حال ہے ملتی نہیں اسے
چلتی ہے چال نبض ہماری طبیب سے

اللہ رے خلوص کہ منزل ابھی ہے دور
غربت کی شام آ کے ملی مجھ غریب سے

دیتی ہے یہ ضرور جو خود بیٹھتی ہے وہ
جھکتی ہے شاخ گل بھی ذرا عندلیب سے

پوشیدہ دل میں ہے کسی پردہ نشیں کا عشق
درد نہاں کا حال کہوں کیا طبیب سے

تجھ میں پڑی ہے جان ہماری پڑی بھی رہ
اے آرزو نہ جا دل حسرت نصیب سے

لائی کچھ ان کے واسطے کچھ اپنے واسطے
گلبن سے پھول داغ لیے عندلیب سے

سر بھی سبوئے سر بھی بچا آج بال بال
زاہد نے بڑھ کے کام لیا تھا جریب سے

دن دوپہر نہ آج ہو اندھیر تو سہی
گزریں ذرا وہ حشر میں میرے قریب سے

بل گیسوؤں سے بڑھ کے جبیں پر پڑے ہوئے
کوئی یہ جانے آئے ہیں لڑ کر رقیب سے

دنیا کی کوئی بات نہیں جانتے ریاضؔ
اک شخص ہیں ریاضؔ بہت ہی غریب سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse