پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

پردہ دار ہستی تھی ذات کے سمندر میں
حسن خوب کھل کھیلا اس صفت کے منظر میں

حسن عشق میں ہے یا عشق حسن میں مضمر
جوہر آئنے میں یا آئینہ ہے جوہر میں

عشق محشر آرا کی طور پر گری بجلی
حسن لن ترانی کہ رہ سکا نہ چادر میں

دیکھ اے تماشائی گل ہے رنگ و بو بالکل
امتیاز نا ممکن ہے عرض سے جوہر میں

گل میں اور بلبل میں کون جانے کیا گزری
چشم پوش مستی تھی اس برہنہ منظر میں

اپچی بناتے ہیں حسن کو سخن گو کیوں
کاٹ ان اداؤں کا کب ہے تیغ و خنجر میں

فرط سوز الفت میں دیکھ کر سکوں دل کا
بجلیاں مچلتی ہیں بادلوں کے محشر میں

چارہ گر کو حیرت ہے ارتقائے وحشت سے
پاؤں میں جو چکر تھا آ رہا ہے وہ سر میں

حسرت آرمان کی ہو کہنا سے گنجائش
ہے وہی مرے دل میں ہے وہی مرے سر میں

ہوں وہ رند یا صوفی مست اس کی دھن میں ہیں
جانے کتنے مے خانے بھر دیے ہیں کوثر میں

چرخ کیا اتر آیا آج فرش گیتی پر
رند بھی ہیں چکر میں مے کدہ بھی چکر میں

مے وہ ہوش پر افگن اور نظر وہ صہبا پاش
مست کیوں نہ ہو کیفیؔ ایک دو ہی ساغر میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse