پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شُوخ نے جس ہنگام کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شُوخ نے جس ہنگام کیا
by نظیر اکبر آبادی

پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شُوخ نے جس ہنگام کیا
ہم تُو رہے مشغول ادھر یاں عشق نے دِل کا کام کیا

آ گئے جب صیاد کہ بس میں سوچ کئے پھر حاصل کیا
اب تُو اسی کی ٹھہری مرضی جن نے اسیر دام کیا

چشم نے چھینا پلکوں نے چھیدا زلف نے باندھا دِل کو آہ
ابرو نے ایسی تیغ جڑی جُو قصہ ہی سب اتمام کیا

سخت خجل ہیں اُور شرمندہ رہ رہ کر پچتاتے ہیں
خواب میں اس سے رات لڑے ہم کیا ہی خیال خام کیا

چھوڑ دیا جب ہم نے صنم کہ کوچے میں آنے جانے کو
پھر تُو ادھر اس شُوخ نے ہم سے شکوہ بھرا پیغام کیا

اُور ادھر سے چاہت بھی یُوں ہنس کر بولی واہ جی واہ
اٹھئے چلئے یار سے ملیے اب تُو بہت آرام کیا

یار کی مے گوں چشم نے اپنی ایک نگہ سے ہم کو نظیرؔ
مست کیا اوباش بنایا رند کیا بدنام کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse