پردہ اور عصمت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردہ اور عصمت
by مجاز لکھنوی

جو ظاہر نہ ہو وہ لطافت نہیں ہے
جو پنہاں رہے وہ صداقت نہیں ہے

یہ فطرت نہیں ہے مشیت نہیں ہے
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے

صبا اور گلستاں سے دامن کشیدہ
نوائے فسوں خیز اور ناشنیدہ

تجلیٔ رخسار اور نا دمیدہ
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے

سر رہ گزر چھپ چھپا کر گزرنا
خود اپنے ہی جذبات کا خون کرنا

حجابوں میں جینا حجابوں میں مرنا
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے

خیالات پیہم میں ہر وقت گم سم
دل نرم و نازک پہ ابر توہم

بجھا سا تبسم گھٹا سا تکلم
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے

وہ اک کاہش تلخ ہر آن دل میں
وہ شام و سحر ایک خلجان دل میں

امنڈتا ہوا ایک طوفان دل میں
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے

نگاہوں کی دعوت کو پامال کرنا
مذاق لطافت کو پامال کرنا

تقاضائے فطرت کو پامال کرنا
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے

قسم انجم شب کے ذوق سفر کی
قسم تازگیٔ نسیم سحر کی

قسم آسمانوں کے شمس و قمر کی
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے

قسم شوخیٔ عشق سنجوگتا کی
قسم جون کے عزم صبر آزما کی

قسم طاہرہ کی قسم خالدہ کی
کوئی اور شے ہے یہ عصمت نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse