پرتو ہے تیرے رخ کا جو جام شراب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پرتو ہے تیرے رخ کا جو جام شراب میں  (1933) 
by منشی ٹھاکر پرساد طالب

پرتو ہے تیرے رخ کا جو جام شراب میں
آتا ہے ماہتاب نظر آفتاب میں

دیکھی شکن جو ان کی جبیں کی عتاب میں
مسطر کے خط دکھائی دئے آفتاب میں

ٹپکا جو تیرے رخ سے پسینہ شراب میں
مہتاب سے ستارے گرے آفتاب میں

یاں آئی موت واں جو چھپا رخ نقاب میں
پردہ رہا کہ آئی قضا بھی حجاب میں

وصل خدا ہی دونوں کو اپنے حساب میں
ناکام میں وہی ہے جو ہے کامیاب میں

قاصد کی جان پڑ گئی قہر و عذاب میں
کیا جانے کیا لکھا تھا انہیں اضطراب میں

گوہر صدف میں مہر مبیں ہے سحاب میں
شیشہ میں ہے پری کہ طرح رخ نقاب میں

ہشیار باغ دہر میں کوئی نہیں رہا
سبزہ بھی سو رہا ہے پڑا مست خواب میں

یہ بدگمانیاں کہ ابھی کچھ کہا نہیں
بیٹھے ہیں وہ گڑھے ہوئے فقرے جواب میں

خیرات ہی پلا دے کوئی جام ساقیا
دیر اس قدر نہ چاہئے کار ثواب میں

دل میں لگی ہے آگ عنایت سے عشق کی
اللہ یوں کسی کو نہ ڈالے عذاب میں

پیتا ہوں میں جو ساقئ عیسی نفس بغیر
پاتا ہوں صاف موت کی تلخی شراب میں

محشر میں ہوں گے ہم سبب بخشش جہاں
ہوگا تمام حشر ہمارے حساب میں

خلوت میں مت بلائیے طالبؔ ہے بے قرار
پیش آئے کچھ نہ اور کہیں اضطراب میں

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse