پرا باندھے صف مژگاں کھڑی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پرا باندھے صف مژگاں کھڑی ہے
by ریاض خیرآبادی

پرا باندھے صف مژگاں کھڑی ہے
نگاہ شوق کیا ماری پڑی ہے

مزے لوٹو کلیم اب بن پڑی ہے
بڑی اونچی جگہ قسمت لڑی ہے

گلوں کی خوش نما بدھی پڑی ہے
ترا قد کیا ہے پھولوں کی چھڑی ہے

نگاہ شوق بھی نٹ کھٹ پڑی ہے
کسی سے طور پر جا کر لڑی ہے

کڑی ہے چوٹ یہ بے شک کڑی ہے
عدو ہے اور پھولوں کی چھڑی ہے

عدو کے واسطے دنیا کا ہے عیش
مصیبت میرے حصے میں پڑی ہے

ہوا سے تیز آتے ہیں ترے تیر
کماں کی طرح چٹکی بھی کڑی ہے

مزے میں رنگ میں تیزی میں ساقی
مئے تسنیم کیا پھیکی پڑی ہے

کرامت ہے سر ناصح کی یہ بھی
کہ اچھے ہاتھ کی اچھی پڑی ہے

یہ کس نے پھول ڈالے ہیں لحد پر
جدا ہر پنکھڑی سے پنکھڑی ہے

لب جاناں نے دی تسکیں دم‌ نزع
ہماری جان میں جاں اب پڑی ہے

کہاں بجلی میں یہ بیتابیاں تھیں
دل مضطر کی پرچھائیں پڑی ہے

نہ دشمن کے چبھا خار اس گلی میں
ہمارے واسطے سولی کھڑی ہے

جو لو کروٹ تو میں سمجھوں شب ہجر
یہ چوٹی کس لیے پیچھے پڑی ہے

ترے قد نے اسے سیدھا بنایا
قیامت ہے کہ سکتے میں کھڑی ہے

قضا کا بھی پڑا ہے مجھ کو رونا
برابر میرے وہ بسمل پڑی ہے

یہ کیا اندھیر ہے صبح شب وصل
نہ سرمہ ہے نہ مسی کی دھڑی ہے

پٹک کر جام مے ہم کب رہے پاک
کہ اڑ کر چھینٹ دامن پر پڑی ہے

ڈراتے ہیں کہ اس سے ڈرتے رہنا
بڑی کلجبھی مسی کی دھڑی ہے

ہوا بھاری میں ایسا نخل گل پر
مرے سائے سے ڈالی پھٹ پڑی ہے

کفن کا گوشۂ دامن تو الٹو
یہ حسرت منہ لپیٹے کیوں پڑی ہے

نہ موسی ہیں نہ ہے برق سر طور
نئے تم ہو نئی ہم پر پڑی ہے

لگا دیتا کوئی مٹی ٹھکانے
ریاضؔ اک آرزو مردہ پڑی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse