پتھر سے نہ مارو مجھے دیوانہ سمجھ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پتھر سے نہ مارو مجھے دیوانہ سمجھ کر
by حفیظ جونپوری

پتھر سے نہ مارو مجھے دیوانہ سمجھ کر
آیا ہوں ادھر کوچۂ جانانہ سمجھ کر

کہتے ہیں یہ رونے سے لگی دل کی بجھے گی
سمجھاتے ہیں اپنا مجھے پروانہ سمجھ کر

میں وہ ہوں کہ سیری مجھے ہوتی نہیں مے سے
دینا مرے ساقی مجھے پیمانہ سمجھ کر

نخوت سے جو اک بات نہ سنتے تھے ہماری
خود چھیڑ رہے ہیں ہمیں دیوانہ سمجھ کر

ہم ان کے ہیں دل ان کا ہے جاں ان کی ہے لیکن
پھر منہ کو چھپاتے ہیں وہ بیگانہ سمجھ کر

رکھا نہ کہیں کا ہمیں بربادئ دل نے
ارمان ٹھہرتے نہیں ویرانہ سمجھ کر

دیکھ آپ سے باہر نہ ہو منصور کی صورت
کرنا ہے تو کر نعرۂ مستانہ سمجھ کر

ہم اور ہی کچھ ڈھونڈتے پھرتے ہیں بتوں میں
بت خانے میں جاتے نہیں بت خانہ سمجھ کر

خوباں سے پٹے یا نہ پٹے وصل کا سودا
دل پہلے ہی لے لیتے ہیں بیعانہ سمجھ کر

ساقی کی جو آنکھوں کو ہوئی بزم میں گردش
ہم لوٹ گئے گردش پیمانہ سمجھ کر

کہہ جاتے حفیظؔ ان کو ہو تم جوش میں کیا کچھ
وہ طرح دیے جاتے ہیں دیوانہ سمجھ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse