پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے


آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں

کب موجود خدا کو وہ مغرور خودآرا جانے ہے


عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں

جی کے زیاں کو عشق میں اس کے، اپنا وارا جانے ہے


چارہ گری بیماریء دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں

ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے


مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں

اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارا جانے ہے


عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ جی اٹھتا ہے دیکھے اسے

یار کے آ جانے کو یکا یک عمر دوبارا جانے ہے


تشنہء خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش

دم دار آبِ تیغ کو اس کے آبِ گوارا جانے ہے