پایا جو تجھے تو کھو گئے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پایا جو تجھے تو کھو گئے ہم
by ریاض خیرآبادی

پایا جو تجھے تو کھو گئے ہم
بیدار ہوئے تو سو گئے ہم

دل میں لئے غیر کو گئے ہم
ایک آئے عدم سے دو گئے ہم

محشر میں لگی بجھانے آئے شیخ
سیدھے تسنیم کو گئے ہم

سمجھے نہ وہ زخم و داغ دل ہے
لے کر نئے پھول دو گئے ہم

بھر کر دم نزع اک دم سرد
جنت کی ہوا میں سو گئے ہم

اب دشت نور و عشق جو ہو
اس راہ میں کانٹے بو گئے ہم

کوثر کا تھا ذکر حوض مے پر
ہم کہہ کے گرے کہ لو گئے ہم

اللہ بچائے دخت رز سے
یہ آئی کہ مست ہو گئے ہم

اب کشمکش حساب کیسی
کچھ حشر میں آ کے کھو گئے ہم

سو کعبہ دین تھے جلوہ افروز
خم خانہ میں آج جو گئے ہم

میخانے میں جب کبھی ہم آئے
داڑھی رو کر بھگو گئے ہم

اس حج میں وہ بت بھی ساتھ ہوگا
یہ سچ ہے ریاضؔ تو گئے ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse