پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا
by بہادر شاہ ظفر

پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا
جب مرا خوں ہو چکا شمشیر پھر کھینچی تو کیا

اے مہوس جب کہ زر تیرے نصیبوں میں نہیں
تو نے محنت بھی پئے اکسیر پھر کھینچی تو کیا

گر کھنچے سینہ سے ناوک روح تو قالب سے کھینچ
اے اجل جب کھنچ گیا وہ تیر پھر کھینچی تو کیا

کھینچتا تھا پاؤں میرا پہلے ہی زنجیر سے
اے جنوں تو نے مری زنجیر پھر کھینچی تو کیا

دار ہی پر اس نے کھینچا جب سر بازار عشق
لاش بھی میری پئے تشہیر پھر کھینچی تو کیا

کھینچ اب نالہ کوئی ایسا کہ ہو اس کو اثر
تو نے اے دل آہ پر تاثیر پھر کھینچی تو کیا

چاہیئے اس کا تصور ہی سے نقشہ کھینچنا
دیکھ کر تصویر کو تصویر پھر کھینچی تو کیا

کھینچ لے اول ہی سے دل کی عنان اختیار
تو نے گر اے عاشق دلگیر پھر کھینچی تو کیا

کیا ہوا آگے اٹھائے گر ظفرؔ احسان عقل
اور اگر اب منت تدبیر پھر کھینچی تو کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse