پانی پانی ہو گیا جوش ابر دریا بار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پانی پانی ہو گیا جوش ابر دریا بار کا
by برجموہن دتاتریہ کیفی

پانی پانی ہو گیا جوش ابر دریا بار کا
دیکھ کر طوفاں ہمارے دیدہ ہائے زار کا

چشم ہمدردی مریض عشق ان آنکھوں سے نہ رکھ
کام کیا نکلے بھلا بیمار سے بیمار کا

دل سے ہمدم نے رہ الفت میں یہ دھوکا دیا
کیا کرے اب کوئی دنیا میں بھروسا یار کا

دل دیا جس کو اسی نے داغ مایوسی دیا
راس ہی آیا نہ ہم کو ہائے کرنا پیار کا

یا مٹایا اس کا لکھوایا میں خود ہی مٹ گیا
اے مقدر اب تو یہ سر اور در ہے یار کا

ہم نے کیفیؔ خوب ہی آنکھیں لڑائیں اس سے کل
کر دیا سارا ہرن نشہ نگاہ یار کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse