پانی سیانے دیتے ہیں کیا پھونک پھونک کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پانی سیانے دیتے ہیں کیا پھونک پھونک کر
by برجموہن دتاتریہ کیفی

پانی سیانے دیتے ہیں کیا پھونک پھونک کر
دل سوز غم نے خاک کیا پھونک پھونک کر

چھڑکاؤ آب تیغ کا ہے کوئے یار میں
پاؤں اس زمیں پہ رکھئے ذرا پھونک پھونک کر

دیکھا نہ آنکھ بھر کے نظر کے خیال سے
لیتے ہیں ہم تو نام ترا پھونک پھونک کر

ہوگا نہ صاف جھوٹی ہوا خواہیوں سے دل
یوں دل کا کب غبار اڑا پھونک پھونک کر

باد نفس سے داغ دل سرد جل اٹھے
ہم نے جلا دیا ہے دیا پھونک پھونک کر

الٹا ہے کیا اس آہ شرربار کا اثر
دل ہی بجھا دیا ہے مرا پھونک پھونک کر

پیری میں آئے گی نہ کبھی طاقت شباب
اے پیر لاکھ پارے کو کھا پھونک پھونک کر

شیطاں کا دھوکا زاہد پر فن پہ کیوں نہ ہو
پیتا ہے چھاچھ دودھ جلا پھونک پھونک کر

آتش بیانئ لب کیفیؔ نے بزم میں
دشمن کے دل کو خاک کیا پھونک پھونک کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse