پامال راہ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پامال راہ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
by شاہ نصیر

پامال راہ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
جوں شیشہ نازک تر تھے کیا سختی میں ہیں پتھر بھی ہم

آئینہ دل کا صاف کر کہلائے صیقل گر بھی ہم
اپنے سوا دیکھیں کسے اندر بھی ہم باہر بھی ہم

جاں بر ہو ان سے کیونکہ دل کہتی ہیں پلکیں یار کی
نیزہ بھی ہم ناوک بھی ہم برچھی بھی ہم خنجر بھی ہم

اشکوں کی دولت کیوں نہ ہو سلطان اقلیم جنوں
رکھتے ہیں ساتھ اپنے سدا لڑکوں کا اک لشکر بھی ہم

چنوا کے ابرو مجھ سے کیا وہ ہنس کے فرمانے لگے
اس تیغ کے دم لے سدا دکھلائیں گے جوہر بھی ہم

کیا خاک کیجے مے کشی اے ساقیٔ گلفام آ
گریاں ہیں مثل ابر کیا جوں برق ہیں مضطر بھی ہم

کہتے ہیں وہ پاں خوردہ لب یاقوت کے ٹکڑے تو تھے
کہلائے لیکن آج سے برگ گل احمر بھی ہم

اے شوخ دانتوں کا ترے یاں یہ تصور ہے بندھا
دن رات چشم تر سے یاں برساتے ہیں گوہر بھی ہم

رکھتے تو ہیں گرداب یم پر ڈر ہے یہ اے چشم تر
گرداب دریا کی طرح کھاتے ہیں یاں چکر بھی ہم

جو چاہے کر جور و جفا پر دل کا مہر داغ سے
روز قیامت کوسنا دکھلائیں گے محضر بھی ہم

قد سے نصیرؔ اس کے سدا اک شور محشر ہے بپا
چھوٹے عذاب قبر سے کیا خاک یاں مر کر بھی ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse