پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے
by عشق اورنگ آبادی

پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے
تجھ کو دیکھا بھی کبھی ہوں گا تو ڈرتے ڈرتے

مستعد ہو کے مرے قتل پہ آیا جلاد
میں نے یہ شعر پڑھا درد سے مرتے مرتے

بارے صد شکر خدا کا کہ بر آئی امید
آرزو آج کی یک عمر سے کرتے کرتے

سرد مہروں سیتی پالا نہ پڑا تھا سو پڑا
ہو گئے سرد دم سرد کے بھرتے بھرتے

منزل عشق نہ طے ہووی بقول سوداؔ
مل گئے خاک میں یاں پاؤں کے دھرتے دھرتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse