پارسا تو پارسائی پر نہ کر اتنا غرور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پارسا تو پارسائی پر نہ کر اتنا غرور
by قاسم علی خان آفریدی

پارسا تو پارسائی پر نہ کر اتنا غرور
میں اگر بندہ ہوں عاصی پر مرا مولیٰ غفور

ماسوا دیدار خواہش ہے مجھے کس چیز کی
تو پڑا پھرتا ہے جنت ڈھونڈھتا حور و قصور

میں اگرچہ رند ہوں تو آپ کو میں آپ کو
زہد سے تیرے مجھے مطلب نہ کچھ کار ضرور

تیرے تئیں غرہ ہے اپنی پارسائی زہد کا
میرے تئیں اللہ کے فضل و کرم سے ہے سرور

رند کے مشرب پر اے زاہد تبسم مت کرے
بھید اس کا کچھ نہ پاوے گا تو ہے معنی سے دور

زخم تیغ ابرو سہہ جاوے نہ تجھ سے بوالہوس
ایک شمع سے ہوا تھا جس کے سرمہ کوہ طور

چوتڑ اوپر سر جھکانا اس کو تو سمجھا ہے فخر
ہے نہیں قابل تو فضل اللہ کا اے بے شعور

کیا تجھے معلوم ہے دیر و حرم کی ایک راہ
بت پرستی اس جگہ اور اس جگہ ہے یک امور

دم غنیمت ہے تو ہر دم یاد میں لے دم کے تئیں
ذکر دائم آفریدیؔ ہو چراغ اندر قبور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse