پائے غیر اور میرا سر دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پائے غیر اور میرا سر دیکھو
by اسماعیل میرٹھی

پائے غیر اور میرا سر دیکھو
ٹوٹ جائے نہ سنگ در دیکھو

ایک عالم پڑا ہے چکر میں
گردش چشم فتنہ گر دیکھو

میں نظر بند غیر مد نظر
اپنا دل اور مرا جگر دیکھو

چشم پر نم ہے تن غبار آلود
آن کر سیر بحر و بر دیکھو

فکر افشائے راز کیوں نہ کروں
کیا حیا خیز ہے نظر دیکھو

ہے دگر گوں مریض غم کا حال
ہو سکے تو دوا بھی کر دیکھو

غیر جھلتے ہیں اب انہیں پنکھا
اثر آہ پر شرر دیکھو

کم نمائی و خویشتن بینی
کتنے بے دید ہو ادھر دیکھو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse