پاؤں پھر ہوویں گے اور دشت مغیلاں ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پاؤں پھر ہوویں گے اور دشت مغیلاں ہوگا
by آغا اکبرآبادی

پاؤں پھر ہوویں گے اور دشت مغیلاں ہوگا
ہاتھ پھر ہوویں گے اور اپنا گریباں ہوگا

دل وحشی تو نہ کر عشق پریشاں ہوگا
مثل آئینہ کے پھر ششدر و حیراں ہوگا

گر یہی عشق کا آغاز ہے تو سن لینا
لاش ہووے گی مری کوچۂ جاناں ہوگا

ڈوب کر مرنے کا شوق اس سے ہی پوچھ اے قاتل
جس نے دیکھا یہ ترا چاہ زنخداں ہوگا

کہتی تھی دام میں صیاد کے رو کر بلبل
اب کبھی ہم کو میسر نہ گلستاں ہوگا

جتنے دنیا میں ستم چاہے تو کر لے مجھ پر
حشر میں ہاتھ مرا تیرا گریباں ہوگا

جان دے بیٹھے گا اک روز تو اس پر آغاؔ
وہ نہیں حال کا تیرے کبھی پرساں ہوگا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.