ٹیس پیڑو میں اٹھی اوہی مری جان گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ٹیس پیڑو میں اٹھی اوہی مری جان گئی
by سعادت یار خان رنگین

ٹیس پیڑو میں اٹھی اوہی مری جان گئی
مت ستا مجھ کو دوگانا ترے قربان گئی

تجھ سے جب تک نہ ملی تھی مجھے کچھ دکھ ہی نہ تھا
ہاتھ ملتی ہوں بری بات کو کیوں مان گئی

جوں جوں پہنچی ہے چمک بندی کا دم رکتا ہے
اب مری جان گئی جان یہ میں جان گئی

میں ترے پاس دوگانا ابھی آئی تھی چلی
میرے گھر میں تو عبث کرنے کو طوفان گئی

زہر لگتی ہے مجھے یہ تری چتھل بازی
یاں ترے آنے سے باجی تجھے پہچان گئی

تیری رنگیںؔ سے کہیں آنکھ لڑی سچ کہہ دے
کچھ تو گھبرائی ہوئی پھرتی ہے اوسان گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse