ٹھیلہ والا شہزادہ
۱۹۱۱ء کے دربار میں دہلی کے دن پھرے۔ نئے شہر کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ نقشے بنے۔ نامورانجینئروں کی دماغ آرائیاں اپنے جوہر دکھانے لگیں۔ شاہان اودھ کی مورث منصور علی خاں صفدر جنگ کے مقبرہ کے آس پاس کئی اینٹ بنانے اور پکانے کے کارخانے جاری ہوئے۔ ہزاروں غریبوں کا روزگار چمکا۔ پکی ہوئی اینٹوں کے انبار ریل گاڑیوں اور ٹھیلو ں میں سوار ہو ہو کر امپریل سٹی (شہنشاہی شہر دہلی) کی تعمیرات میں جانے لگے۔۱۱ مئی ۱۹۱۷ء کا ذکر ہے۔ ٹھیک دو پہر کی دھوپ اور حواس کھونے والی گرمی میں ایک بوڑھا ٹھیلے والا خان بہادر سیٹھ محمد ہارون کے بھٹہ سے اینٹیں لے کر دہلی جا رہا تھا۔ سر پر سورج کی تیز کرنیں، سفید داڑھی اور مونچھوں پر راستہ کا گردو غبار، پیشانی پر پسینہ، جس میں اینٹوں کی سرخی جمی ہوئی۔ پیچھے سے ایک موٹر (غالباً قطب صاحب سے) آ رہی تھی۔ ڈرائیور نے ہر چند بگل بجایا، مگر بوڑھے اور بہرے ٹھیلہ والے نے اس کی آواز نہ سنی اور ٹھیلہ کو سڑک سے نہ بچایا۔ موٹر قریب آئی اور ٹھیلے سے ٹکرائی۔ ڈرائیور بہت ہوشیار تھا۔ ٹکر لگتے لگتے موٹر کو روک لیا اور ٹھیلہ کی ٹکر سے موٹر کو کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس موٹر میں ایک پنجابی سوداگر جوانی اور شراب کے نشے میں چور کسی بازاری عورت کو لیے بیٹھا تھا۔ ٹھیلہ والا کو غریب بوڑھا اور کمزور دیکھ کر غصہ سے بیتاب ہوگیا۔ ہاتھ میں بطور فیشن کے ایک کوڑا تھا۔ اسی کو لیا۔ موٹر سے اترا اور بچار ے ٹھیلہ والے کو مارنے لگا۔ٹھیلہ والا اکیلا تھا۔ ضعیف و ناتواں تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مفلس اور نادار تھا، مگر خبر نہیں دل میں کیا ہمت اور جرأت رکھتا تھا کہ چار کوڑے تو پہلے حملے میں اس نے کھا لیے، لیکن پھر بیل ہانکنے کا چابک لے کر اس نے بھی اس مخمور نوجوان پر حملہ کیا اور چابک کے بانس کا ڈنڈ ا ایسا مارا کہ شرابی عیاش کا مغز پھٹ گیا۔ موٹر ڈرائیور نے چاہا کہ اس بوڑھے کو سزا دینے کو آگے بڑھے۔ مگر قدم بڑھانے سے پہلے ہی چابک کی لکڑی اس کے سر پر بھی پڑی، جس نے اس کا چہرہ بھی خون سے لال کردیا۔ موٹر نشین طوائف نے گھبرا کر رونا شروع کیا اور بلبلا کر چیخی کہ خدا کے لیے تم موٹر میں آجاؤ ورنہ یہ گنوار تم کو جان سے مار ڈالے گا۔یہ سن کر جوان اور موٹر بان دونوں موٹر میں بیٹھ گئے اور ٹھیلہ والے کو گالیاں دینے لگے۔ بوڑھا خاموش کھڑا مسکراتا رہا اور کہتا رہا کہ بس ایک ہی وار میں بھاگ نکلے۔ تیموری طمانچہ کھانا آسان نہیں ہے۔ ٹھیلہ والا اس قدر بہرہ تھا کہ موٹر والوں کی گالیاں اس نے نہ سنیں اور پھر ٹھیلہ پر آن بیٹھا۔ موٹر بھی دہلی چلی گئی اور ٹھیلہ بھی رسینہ (وہ مقام جہاں نئی دہلی کی تعمیر ہو رہی ہے) میں کہیں اینٹیں ڈالنے روانہ ہو گیا۔(۲)رسینہ کے تھانے میں دوسرے دن دو زخمی اور چند ٹھیلے جمع تھے۔ وہ بوڑھا ٹھیلے والا بھی کھڑا تھا۔ داروغہ پولیس نے پوچھا، ’’کیا تم نے ان کو زخمی کیا ہے؟‘‘ بوڑھا چپ کھڑا رہا۔ داروغہ نے پھر ذرا بگڑ کر سوال کیا اور کہا کہ ’’بولتا کیوں نہیں۔‘‘ دوسرے ٹھیلے والے بولے، ’’حضور! یہ بہرا ہے۔‘‘ تب ایک سپاہی نے بوڑھے کے کان کے پاس جا کر آواز سے یہی سوال کیا تو بوڑھے نے جواب دیا، ’’ہاں میں نے مارا ہے۔ انہوں نے مجھ پر حملہ کیا۔ چار کوڑے مارے تو میں نے بھی جواب ترکی بہ ترکی دیا۔ یہ امیر لوگ غریبوں کو گھاس پھوس سمجھتے ہیں۔ آج سے ساٹھ برس پہلے ان زخمیوں کے ماں باپ میرے غلام تھے اور یہی نہیں سارا ہندوستان میرا محکوم تھا۔‘‘داروغہ پولیس ہنسا اور اس نے کہا شاید یہ پاگل ہوگیا ہے۔ بڑھاپے نے اس کی عقل کھودی۔ اچھا اس کو حوالات میں لے جاؤ۔ کل عدالت میں چالان کیا جائے گا۔ ایسے دیوانہ کو پاگل خانہ بھیجنا چاہیے۔(۳)سٹی مجسٹر یٹ کے ہاں بوڑھا ٹھیلہ والا پولیس کی حراست میں حاضر تھا اور دونوں مدعی بھی موجود تھے۔ کورٹ انسپکٹر نے واقعات پیش کیے تو عدالت نے مد عا علیہ کا بیان لینا چاہا اور یہ معلوم کر کے کہ وہ بہرا ہے، چپراسی نے چیخ چیخ کر اس کا اظہار لیا۔ بوڑھے نے بیان کیا،’’میرا نام ظفر سلطان ہے۔ میں مرزا بابر برادر بہادر شاہ بادشاہ کا بیٹا ہوں۔ میرے دادا ہندوستان کے شہنشاہ معین الدین اکبر شاہ ثانی تھے۔ غدر کے بعد میں ہزاروں پریشانیوں کے بعد ملکوں ملکوں پھرتا ہوا پھر دہلی میں آگیا اور ٹھیلا چلانے کا کام کرنے لگا۔ ۱۱مئی ۱۹۱۷، جو ۱۱ مئی ۱۸۵۷ء کی طرح گرم اور سخت تھی، اس واقعہ کی تاریخ ہے۔ میں بہرا ہوں۔ میں نے موٹر کی آواز نہیں سنی۔ موٹر والوں نے میری عمر اور حالت پر رحم نہ کیا اور میرے چار کوڑے مارے۔ میرے بدن میں جو خون ہے، اس کو مار کھانے کی اور ظلم و جور سہنے کی اب تو عادت ہوگئی ہے، مگر پہلے نہ تھی۔جس جگہ عدالت کی کرسی ہے، اسی مقام پر غدر سے پہلے میرے حکم سے بارہا بہت سے شریروں اور سرکشوں کو سزائیں دی گئی ہیں۔ میرے دل اور دماغ نے ان عادتوں کو فراموش نہیں کیا۔ گو میری آنکھوں نے ان نظاروں کی دید مدت سے ترک کر دی ہے۔ میں کیونکر چار کوڑوں کو برداشت کر سکتا تھا۔ میں نے بے بیشک بدلہ لیا اور ان دونوں بہادر جوانوں کے سر پھاڑ ڈالے۔ اگر آپ شریف لوگوں کا انصاف کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کے فیصلہ کے سامنے سر جھکانے کو تیار و آمادہ ہوں۔‘‘ بوڑھے کی تقریر سن کر عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ مجسٹریٹ صاحب جو یورپین تھے، قلم منہ میں لے کر بوڑھے کو دیکھنے لگے اور ان کا مسلمان سر رشتہ دار آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ دونوں مدعی بھی یہ بیان سن کر دم بخود رہ گئے۔عدالت نے حکم دیا، تم کو رہا کیا جاتا ہے اور مدعیوں پر دس دس روپے جرمانہ، کیونکہ خود ان کے بیان سے ظاہر ہے کہ انہوں نے نشہ کی حالت میں پہلے مدعا علیہ پر حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد مجسٹریٹ نے چپراسی کے ذریعہ بوڑھے شہزادے سے پوچھا، ’’کیا تمہاری پنشن سرکار سے مقرر نہیں ہوئی۔ تم ٹھیلے کا ذلیل کا م کیوں کرتے ہو۔‘‘شہزادہ نے جواب دیا، ’’مجھے معلوم ہے کہ انگریزی سرکار نے ہمارے خاندان والوں کی پانچ پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر کردی ہے، مگر میں اول تو برسوں دہلی سے غیر حاضر رہا۔ اس کے علاوہ جب تک ہاتھ پاؤں چلتے ہیں، کام کر کے محنت کی روزی کما نی فرض سمجھتا ہوں۔ جناب مجھ کو ٹھیلہ میں تین چار روپے روزا نہ مل جاتے ہیں۔ دور وپے روز بیلوں وغیرہ کا خرچ ہے، جس میں گھر کا کرایہ بھی شامل ہے اور روپیہ دو روپیہ مجھ کو بچ جاتے ہیں۔ میں پانچ روپے مہینہ لے کر کیا کرتا۔ آج کل بہت خوش ہوں اور مجھ کو ہر طرح کی آزادی اور بے فکری ہے۔ جو لوگ آپ کی کچہریوں میں نوکریاں تلاش کرتے پھرتے ہیں اور بی اے ایم اے پاس ہونے میں عمریں برباد کرتے ہیں، ان سے مجھ ٹھیلہ والا کی حالت لاکھ درجہ بہتر ہے۔ ٹھیلا چلانے میں کچھ ذلت نہیں ہے، کیونکہ میں بیلوں پر حکومت کرتا ہوں اور خودبیل بن کر محکوم نہیں بنتا۔‘‘(۴)ٹھیلہ والا شہزادہ پہاڑ گنج کی مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اور اسی کے قریب اس کا گھر تھا۔ جب وہ نماز پڑھ چکا تو ایک شخص اس کے پاس گیا اور کہا، ’’میں آج کچہری میں موجود تھا اور میں نے آپ کے بیان کا چرچا سنا تھا۔ کیا آپ غدر کے حالات سنا سکتے ہیں کہ آپ غدر میں اور اس کے بعد کہاں کہاں رہے اور آپ پر کیا کیا مصیبت پڑی۔‘‘ٹھیلہ والے نے مسکرا کر کہا، ’’کیا آپ وہ حالات سن سکتے ہیں؟ اور کیا آپ کو ان جھوٹی باتوں پر یقین آسکتا ہے؟ کیونکہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو بات گزر جائے، خواہ خوشی کی ہو یا تکلیف کی، ہو جھوٹی ہے۔ اس کا بیان کرنا جھوٹ بولنا ہے۔ آنے والا زمانہ وہم ہے۔ گذرنے والا وقت جھوٹا ہے اور موجودہ گھڑی سچی ہے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ جو وقت سامنے ہے اس پر یقین کروں اور ہنسی خوشی اس کو گذار دوں۔ نہ گزرے وقت کی یاد دل میں آنے دوں، نہ آنے والے زمانے کا فکر ذہن میں لاؤں۔ بس جو کچھ سمجھوں، اسی وقت کو سمجھوں، جو آنکھوں کو نظر آتا ہو اور جس میں موجودہ سانس کی آمد و رفت ہو۔‘‘سائل نے کہا، ’’یہ تو آپ کی ذاتی تجربہ کی باتیں ہیں۔ آپ کے دل کو صدموں اور حادثوں نے دنیا سے اداس کر دیا ہے، مگر میں تو واقعات غدر کی یادداشت مرتب کرنے کو آپ سے یہ حالات پوچھتا ہوں۔ میں نے اور بھی اسی طرح بہت سے واقعات جمع کیے ہیں اور آپ بیتی کیفیت شہزادوں سے پوچھ پوچھ کر لکھی ہے۔‘‘ یہ سن کر شہزادہ نے زور سے قہقہہ لگایا اور کہا، ’’شاید آپ اخبار والے ہیں۔ میں ان لوگوں سے سخت بیزار ہوں۔ یہ بہت ہی جھوٹ بولا کرتے ہیں۔ اچھا آپ میرے گھر پر چلئے۔ میں مہمان کی دل شکنی نہیں کروں گا اور آپ جو پوچھیں گے، بتاؤں گا۔‘‘شہزادہ سائل کو لے کر اپنے گھر میں گیا۔ چھپر کا ایک مکان تھا۔ باہر صحن مین دو بیل اور ایک گائے بندھی ہوئی تھی، اندر دالان میں ایک تخت بچھا ہوا تھا۔ برابر ایک پلنگ تھا۔ دونوں پر سفید چاند نیاں بچھی ہوئی تھیں، جن سے غریب مگر محنتی اورکماؤ شہزادہ کی نفاست مزاجی ظاہرہوتی تھی۔ شہزادہ نے سائل کو تخت پر بٹھایا اور خود باورچی خانہ سے کھانا لایا اور کہا آؤ پہلے کھانا کھا لو۔ پھر باتیں کریں گے۔ کھانا ا گر چہ ایک آدمی کا تھا، مگر دو قسم کا سالن، دال چٹنی اور کچھ میٹھا، اس بات کو ظاہر کرتی تھی کہ شہزادہ اس حالت میں مکلف زندگی بسر کرتا ہے۔ سائل نے ہر چند عذر کیا مگر شہزادہ نہ مانا اور دونوں نے کھانا کھایا اور پھر شہزادہ نے خود حقہ بھر ا اور سائل کے آگے رکھا۔ اس نے حقہ نہ پینے کا عذر تو شہزادے نے کلی کو آگے رکھ کریہ داستان کہنی شرو ع کی۔(۵)میں میرزا بابر کا بیٹا ہوں۔ میرزا بابر بہادر شاہ کے بھائی تھے۔ غدر سے پہلے بہادر شاہ کی حکومت تو ہندوستان میں نہ تھی، مگر عزت بادشاہوں کی سی ہر صوبہ، ہر شہر اور ہر آبادی میں ان کے نام کی جاتی تھی اور دہلی میں تو ہر شخص بہادر شاہ اور ان کے خاندان کا وہی ادب و لحاظ کرتا تھا جو شاہ جہاں اور عالمگیر کے وقت میں ہوتا تھا۔میں اپنے باپ کا بہت لاڈلا بیٹا تھا۔ اگر چہ ان کے اولاد اور بھی تھی، مگر اپنی ماں کا میں اکلوتا تھا۔ میرے والد کا غدر سے پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ جب غدر پڑا اور باغیوں کی فوج دہلی میں گھسی تو جیسی ستم کاریاں اس نے انگریزوں اور ان کی عورتوں و بچوں پر کیں، ان کے کہنے سے کلیجہ کا نپتا ہے۔ اس کے بعد جب انگریز پنجاب کی مدد لے کر دہلی پر آئے اور اس کو مغلوب کر لیا تو بادشاہ سمیت سارا شہر بھاگ نکلا۔ میری والدہ نا بینا تھیں اور آئے دن کی بیماریوں سے بہت کمزور ہوگئی تھیں۔ رتھ میں سوار ہونا بھی ان کو دوبھر تھا، مگر دو عورتوں کی مدد سے میں نے ان کو سوار کیا اور خود بھی اس میں سوار ہو کر دہلی سے نکلا۔ بادشاہ و غیرہ تو مقبرہ ہمایوں گئے تھے مگر میں نے کرنال کا رخ کیا کیونکہ وہاں میرے ایک دوست رہتے تھے، جن سے دہلی میں اکثر ملاقات ہوا کرتی تھی اور وہ کرنال کے علاقہ میں صاحب حیثیت زمیندار تھے۔ہمارا رتھ اجمیری دروازہ سے باہر نکلا (راستہ تو لاہوری دروازے سے تھا، مگر ادھر انگریزی فوج کا ڈر تھا) تو دیکھا ہزاروں عورت، مرد، بچے، بوڑھے بقچیاں سروں پر رکھے حیران و پریشان چلے جا رہے تھے۔ رتھ والے نے کہا گوڑ گا نوہ ہوکر کر نال چلنا چاہئے تاکہ فوج والوں کے ہاتھ سے امن رہے گا۔ گوڑگانوہ تک تو ہم امن سے چلے گئے۔ اگر چہ راستہ میں گوجرو غیرہ ملے، مگر ہم حیلہ حوالے کرکے ان کے ہاتھوں سے بچ گئے، لیکن گوڑگانو ہ سے جب کرنال کی طرف مڑے تو دو کوس کے بعد ہی گوجروں کے ایک غول نے رتھ کو گھیر لیا اور لوٹنا چاہا۔ابھی انہوں نے ہاتھ نہ ڈالا تھا کہ سامنے سے ایک انگریزی فوج کا دستہ آگیا۔ یہ سب گورے تھے۔ ان کو دیکھ کر گوجر تو بھاگ گئے اور گورے گھوڑے دوڑا کر رتھ کے پاس پہنچے اور انہوں نے مذاق کے انداز سے انگریزی زبان میں کچھ کہنا شروع کیا جس کو میں نہیں سمجھا۔ میں مشرق رخ تھا۔ مغربی رخ سے ایک گورے نے رتھ کا پردہ اٹھا کردیکھا اور والدہ کو نابینا اور بڑھیا دیکھ کر قہقہہ لگایا اور اپنے ساتھیوں سے کچھ کہا جس کو سن کر وہ سب آگے بڑھ گئے اور ہم کو کچھ تکلیف نہ دی۔جب وہ چلے گئے تو ہم آگے بڑھے اور شام تک چلتے رہے۔ رات کو ایک گاؤں کے پاس قیام کیا۔ وہاں آدھی رات کو چور بیل کھول کر لے گئے۔ گاڑی بان بھی کہیں غائب ہوگیا۔ صبح کو میں بہت فکر مند ہوا اور گاؤں سے جاکر کرائے کی گاڑی مانگی۔ یہ جاٹ تھے۔ ان کا چودھری میرے ساتھ آیا او ر بولا، ’’گاڑی تو ہمارے گاؤں میں نہیں ہے۔ تم اپنی ماں کو ہمارے گھر میں ٹھہرا دو۔ دوسرے گاؤں سے گاڑی منگوادیں گے۔‘‘ میں نے اس کو غنیمت سمجھا اور والدہ کو لے کر چودھری کے گھر میں چلا گیا۔ ہمارے پاس ایک پٹاری تھی اور ایک صندوقچہ اور ان دونوں میں اشرفیاں اور جڑاؤ زیور تھا۔چودھری نے گھر میں اتار کر اور سب سامان رکھ کر ایک آدمی کو دوسرے گاؤں سے گاڑی لانے کے لیے بھیجا۔ تھوڑی دیر میں گاؤں والوں نے غل مچایا کہ انگریزی فوج آتی ہے۔ چودھری میرے پاس آیا اور کہا جاؤ تم گھر سے بھاگ جاؤ، ورنہ ہم بھی تمہارے ساتھ مارے جائیں گے۔ میں بہت گھبرایا اور چودھری سے کہنے لگا کہ اندھی ماں کو لے کر کہاں جاؤں۔ تم کو میرے حال پر ترس نہیں آتا۔ یہ سن کر اس جاٹ نے میرے ایک مکا مارا اور کہا کیا ہم تیرے لیے اپنی گردن کٹوادیں۔ میں نے بھی اس کے تھپڑ رسید کیا۔ یہ دیکھتے ہی جاٹ جمع ہوگئے اور ان سب نے مل کر مجھ کو خوب مارا اور میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ ہوش میں آیا تو ایک جنگل میں پڑا تھا اور والدہ میرے سرہانے بیٹھی رو رہی تھیں۔ والدہ نے کہا وہ جاٹ تجھ کو اور مجھ کو ایک چار پائی پر اٹھا کر یہاں ڈال گئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے انہوں نے اسباب لوٹنے کا بہانہ کیا تھا۔ فوج ووج کچھ نہ آئی تھی۔وہ بڑا کٹھن وقت تھا۔ جنگل بیابان، دھوپ کی شدت، ایک میں اور میری ناتواں آنکھوں سے محتاج ماں اور چاروں طرف سناٹا اور دشمنوں کا ڈر، راستہ کی بے خبری اور زخموں کی دکھن سونے پر سہاگہ۔ والدہ نے کہا بیٹا چلو ہمت کر کے آگے بڑھو۔ یہاں جنگل میں پڑے رہنے سے کچھ فائدہ نہیں۔ میں کھڑا ہو گیا۔ سر میں اور بازو پر زخم تھے۔ پیروں پر بھی چوٹ آئی تھی، مگر اندھی ماں کا ہاتھ پکڑ کے راستہ چلنا شروع کیا۔ کانٹے دار جھاڑیاں سارے میدان میں پھیلی ہوئی تھیں، جنہوں نے بدن کے کپڑے پھاڑ ڈالے اور پیروں کو لہولہان کر دیا۔ والدہ ٹھوکریں کھا کھا کر گر پڑتی تھیں اور میں ان کو سنبھالتا تھا، مگر زخموں کی کمزوری سے مجھ میں بھی چلنے کی ہمت نہ تھی۔ دو وقت سے ہم نے کچھ کھایا بھی نہ تھا۔ غرض ایسا وقت تھا کہ خدا دشمن کو بھی نہ دکھائے۔جب دوپہر کا سورج سر پر آیا تو میرے سر کے زخم میں ایسی تکلیف ہوئی کہ میں چکرا کر گر پڑا۔ ہوش تھا مگر اٹھنے اور چلنے کی طاقت نہ تھی۔ والدہ نے میرا سرا پنے زانو پر رکھ لیا اور یہ دعا مانگنی شروع کی، ’’الٰہی مجھ پر رحم کر۔ میرے گناہوں کو معاف کردے اور میری بچہ کی جان کو بچا لے۔ خدایا! یہ اندھی شہزادی تیرے آگے ہاتھ پھیلاتی ہے۔ اس کو محروم نہ کر۔ ہمارا تیرے سوا کوئی نہیں ہے۔ آسمان زمین ہمارے دشمن ہیں۔ تجھ بن کس سے کہوں۔ تو جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے ذلت دے۔ کل ہم ملکوں اور ہاتھی گھوڑوں اور لونڈی غلاموں کے مالک تھے۔ آج ان میں سے کچھ ہمارے پاس نہیں۔ کس برتے پر دنیا والے اس فانی جہان میں جینے کی آرزو کرتے ہیں۔ تو بہ ہے۔ گناہوں کی توبہ ہے۔ رحم رحم۔ اے خدا رحم۔‘‘اماں دعا مانگ رہی تھیں کہ ایک گنوارا دھر آنکلا اور اس نے کہا، ’’بڑھیا تیرے پاس جو کچھ ہو ڈال دے۔‘‘ والدہ بولیں، ’’بیٹا میرے پاس تو سوائے اس زخمی بیمار کے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر اس گنوار نے ایک لٹھ والدہ کے سر پر مارا۔ لٹھ کے پڑتے ہی والدہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور انہوں نے کہا، ’’ہائے ظالم میرے بچہ کو نہ ماریو۔‘‘ میں ہمت کر کے اٹھا مگر پھر چکرا کر گر پڑا اور بیہوش ہوگیا۔ گنوارنے میرے اور والدہ کے کپڑے اتار لیے۔ مجھے ہوش آیا تو گنوار چلا گیا تھا اور ہم دونوں بالکل برہنہ پڑے تھے۔ والدہ دم توڑ رہی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا، ’’اماں کیا حال ہے؟‘‘ انہوں نے بہت اکھڑی آواز میں کہا، ’’میاں مرتی ہوں۔ میاں کو خدا کے سپرد۔۔۔ آہ کفن بھی میسر نہ آیا۔ ارے گور بھی نہ ملے گی۔ میں شہنشاہ ہند کی بھاوج ہوں۔‘‘ لاَ اِلہٰ اِلا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُو ل اللہ کہا اور مر گئیں۔میں نے وہیں سے ریتا سمیٹا اور اس بیکس لاش کو خاک میں چھپا دیا اور خود بھی بمشکل گھسٹ گھسٹ کر ایک درخت کے نیچے جاکر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک فوجی سوار دہاں سے گذرا اور مجھ کو دیکھ کر قریب آیا۔ میں نے سارا حال اس سے کہا۔ اس نے رحم کیا اور کمر کا رومال کھول کر مجھ کو دیا، جس سے میں نے تہ بند باندھا۔ اس کے بعد اس سوار نے مجھ کو اٹھاکر گھوڑے پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور اپنی چھاؤنی میں لے گیا۔ وہاں اس نے میرا علاج کرایا، جس سے میرے زخم اچھے ہو گئے۔ پھر میں اس کی خدمت کرنے لگا۔ یہ مسلمان سوار بہت ہی نیک مزاج تھا۔ اس کا مکان پٹیالہ میں تھا۔ اس کے ہمراہ کچھ دن تومیں پٹیالہ میں رہا اور پھر فقیر ہو کر شہر بہ شہر پھرنے لگا۔جب بمبئی پہنچا تو خیراتی قافلہ کے ساتھ مکہ معظمہ چلا گیا اور وہاں دس برس گذارے۔ پھر مدینہ شریف حاضری دی اور وہاں بھی پانچ برس بسر کیے۔ اس کے بعد شام اور بیت المقدس کی زیارتیں کر کے حلب ہو کر بغداد شریف گیا۔ دو سال وہاں کاٹے۔ بغداد سے ایک میمن کے ہمراہ کراچی آیا اور وہاں سے دہلی آگیا، کیونکہ دہلی کی یاد مجھ کو ہر جگہ بے چین رکھتی تھی۔یہاں ریل پر میں نے مزدوری کرنی شروع کی، جس سے مجھ کو کھانے پینے کے بعد کچھ بچت ہونے لگی۔ اور دو سال میں میرے پاس تین سو روپے ہوگئے تو میں نے ایک ٹھیلہ والے کی شرکت میں ٹھیلہ بنایا اور اس کی آمدنی سے آہستہ آہستہ ساجھی کا حصہ ادا کر کے اپنا مستقل ذاتی ٹھیلہ بنا لیا۔ اور اب اسی پر میری گذر اوقات ہے۔سائل نے کہا، ’’بہراپن کب ہوا؟ اور اس سے تو آپ کو تنہائی میں بہت تکلیف اٹھانی پڑتی ہوگی۔‘‘ شہزادہ نے ہنس کر جواب دیا، ’’خدا کا شکر ہے کہ کچھ تکلیف نہیں ہوتی۔ سارے جہان کے عیب سننے سے کان بند ہیں۔ گاؤں میں جب جاٹوں نے مارا تھا، اسی وقت دماغ پر ایسی چوٹ آئی تھی جس سے کان کی قوت جاتی رہی۔ اب صرف بائیں کان سے کچھ سن سکتا ہوں۔ دایاں بالکل بے کار ہے۔‘‘سائل نے یہ ماجرائے عبرت سن کر کہا، ’’کیا میں ان کو اپنی کتاب میں لکھ دوں؟‘‘ شہزادہ نے کہا، ’’ضرور لکھ دو، مگر یہ بھی لکھ دینا کہ ہر گذر نے والی بات اور گذرنے والا وقت اور گذرے نے والی راحت و تکلیف جھوٹی اور بے اصل ہے مگر اس میں عبرت ضرور ہے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |