ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں
by رشید لکھنوی

ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں
کھڑے ہیں منتظر ہم گھر سے وہ باہر نکلتے ہیں

اسیران کہن معتوب ہو ہو کر نکلتے ہیں
کہ زنداں سے جنازے اٹھتے ہیں بستر نکلتے ہیں

نہیں معلوم منہ سے دل جگر کیوں کر نکلتے ہیں
ہم ان سے پوچھ لیں گے چھوڑ کے جو گھر نکلتے ہیں

خبر لیتا نہیں غربت میں کوئی پا شکستہ کی
جہاں ہم ہیں ادھر سے قافلے اکثر نکلتے ہیں

کبھی مدفوں ہوئے تھے جس جگہ پر کشتۂ ابرو
ابھی تک اس زمیں سے سیکڑوں خنجر نکلتے ہیں

ہر اک معشوق کے دفتر میں ہم مقتول لکھے ہیں
جہاں دیکھو ہمارے نام کے دفتر نکلتے ہیں

نہیں ہے ایک حرف تلخ کی جاگو مرے دل میں
مگر پوچھو تو شکوؤں کے ابھی دفتر نکلتے ہیں

جوانی سے تکلف بڑھ گیا ہے میرے ساقی کا
شراب کہنہ آئی ہے نئے ساغر نکلتے ہیں

ہزاروں مفسدے در پر بپا رہتے ہیں اے قاتل
ترے کوچے سے لاکھوں فتنۂ محشر نکلتے ہیں

ابھی فرصت نہیں اے اہل محشر سب فرشتوں کو
ٹھہر جاؤ مرے اعمال کے دفتر نکلتے ہیں

جو کر کے ضبط ساتھ اشکوں کے ہیں آنے نہیں دیتا
صدا دیتا ہے دل پہلو سے ہم باہر نکلتے ہیں

ہوا ہے سخت مشکل دفن ہونا تیرے وحشی کا
جہاں پر قبر کھودی جاتی ہے پتھر نکلتے ہیں

بہار آئی مبارک عاشق و معشوق کو ملنا
کہ کلیاں پھوٹتی ہیں بلبلوں کے پر نکلتے ہیں

سوا قلب و جگر کے مملکت میں عشق کی کیا ہے
اگر ڈھونڈھو تو یہ اجڑے ہوئے دو گھر نکلتے ہیں

نظر کے خوف سے کتری گئیں ہیں ان کی واں پلکیں
مری رگ رگ سے یاں ٹوٹے ہوئے نشتر نکلتے ہیں

سمجھ کے جن کو جگنو باندھتے ہو اپنے دامن میں
شرر یہ شب کو میرے دل سے اے دلبر نکلتے ہیں

نشاں قلب و جگر کا آنسوؤں سے صاف کیا پاؤں
کہ وہ تو کشتیاں ڈوبی ہیں سو لنگر نکلتے ہیں

کشیدہ ان کے ابرو ہیں نگاہیں تیز ہوتی ہیں
کمانیں کھنچ رہی ہیں میان سے خنجر نکلتے ہیں

جگر دل آتے ہیں آنکھوں سے باہر جمع ہیں آنسو
کہ اپنے ملک سے سلطاں مع لشکر نکلتے ہیں

خیال اتنا تو ہے تیرے گلے کا ہار ہوں شاید
گل تر باغ سے ہنستے ہوئے باہر نکلتے ہیں

جہنم سے کوئی کہہ دے ذرا ہشیار ہو جائے
غضب کا وقت ہے قبروں سے دامن تر نکلتے ہیں

توقع اٹھ گئی آنے کی بالکل یوں اٹھایا ہے
کہ آج ان کی گلی سے ہم مع بستر نکلتے ہیں

کروں کیوں کر نہ تعظیم اس کی میں لائے جو خط اس کا
کہ اکثر اس طرح کے لوگ پیغمبر نکلتے ہیں

قفس میں ہم صفیران چمن کیوں چھوڑے جاتے ہو
ذرا دو دن ٹھہر جاؤ ہمارے پر نکلتے ہیں

جگر داری کا دعویٰ مٹ گیا ہر شخص کہتا ہے
جو دونوں ہاتھ ہم رکھے ہوئے دل پر نکلتے ہیں

رشیدؔ آغاز الفت سے کہیں انجام بہتر ہے
کہ بحر عشق کے ڈوبے لب کوثر نکلتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse