ٹھنڈے لب
میں اسٹار بک کافی ہاؤس میں داخل ہوا اور بیٹھنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائی لیکن کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں آرڈر کرنے والی لائن میں کھڑا ہوگیا- لنچ کا وقت تھا، میں نے سوچا جب تک میں کھڑکی تک پہنچوں گا کوئ نہ کوئ سیٹ خالی ہوجاۓ گی۔ کافی لینے کے بعد میں نےایک دفعہ پھر سے جگہ تلاش کرنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائ لیکن کوئ سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں کاؤنٹر پرٹیک لگا کرکھڑا ہوگیا۔ ہرطرح کے لوگ آ جا رہے تھے۔ قریب کی یونیورسٹی سے طالب علم ، آفس ورکرآس پاس کی بلڈنگوں سےاور وہ لوگ جو کہ خریداری سےوقفہ لے رہے تھے۔ وہ اکیلی گلاس کی دیوار کے نزدیک ایک کرسی پر بیٹھی تھی اس کی میز پر ایک خالی کافی کا کپ تھا اور اس کی نگاہ میز پر رکھے ہوۓ پرچے پرتھی۔ بالو ں کی ایک لٹ اس کے گالوں کوچھو رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کوگالوں پر ڈھلکتےدیکھا۔ آنسوگالوں سے پھسل کر کاغذ کے پرچے پرگرے۔ میں نےاندازہ لگانے کی کوشش کی اس کاغذ پر کیا لکھا ہوسکتا ہے جو کہ ایک حسین لڑکی کوسرے عام رلا دے۔ شاید اُس سے، اُس کے محبوب نے ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن نہیں آیا یا خط گھرسے آیا ہو اور والدین نے اس کی شادی کسی اور سے کرنے کا وعدہ کرلیا ہو یا وہ اس کی پڑھائ کے پیسے نہیں بھیج سکتے۔
میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا اور میری نظریں اس پرتھیں کہ اس نے اپنی نظریں اوپر اٹھائیں۔ ہماری نظریں ایک مختصر سے لمحہ کے لیے ملیں اوراس نے اپنی آنکھوں کو پھرسے جھکا لیا۔ یہ آنکھیں کتنی اُداس ہیں ، میں نےان کا درد اپنےدل میں محسوس کیا۔ اس نےخط کو پھر سے پڑھا اوراس کےگالوں پر آنسؤں کی ایک لکیر سی بن گئ۔
اچانک وہ کھڑی ہوگئ اورتیزی سے دروازے کی طرف چلی گئی۔اس نے دروزا ہ کھولا اور فٹ پاتھ پر اترگئ۔ میں نےاس بھیڑ میں اس پر نگاہ رکھنے کی کوشش کی۔ وہ ٹریفک سِگنل کے پاس رکی، ایک لمحہ وہ فٹ پاتھ پہ تھی اور دوسرے لمحے سڑک پر۔ میں نے کار کے بریکوں کی آواز سنی۔ کپ رکھ کرمیں باہردوڑا۔ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے راستہ بنایا۔ وہ خون میں لت پت تھی۔
کیا کسی نے ایمبولِنس کے لیے کال کیا؟ میں چلایا۔
“ ہاں“ ۔ کسی نے کہا۔
میں نے اس کےقریب بیٹھ کر اس کی نبض تلاش کرنے کی کوشش کی۔ نبض نہیں تھی۔ میں نےاس کےسینے پر کان رکھ کراس کے دل کی دھڑکن کو سننے کی کوشش کی۔ دل بہت آہستگی سے دھڑک رہا تھا - اس نے ایک ہچکی لی اور اُس کا دل خاموش ہوگیا۔
کوئ چلایا۔ " اس کو سی پی آر دو"۔ میں نے اس کی ناک کو بند کرکےاس کے منہ سے منہ ملادیا اور اس کو لمبی لمبی سانسیں دینے لگا۔ پھر اس کے سینہ پر پندرہ دفعہ دباؤ ڈالا۔ میں نے پھر سےاس کےدل کی آواز کو سننا چاہا ۔ خاموشی بالکل خاموشی۔ میں نے پھر سے اس کو اپناسانس دینے کی کوشش کی مگراس کے لب سرد ہو چکے تھے۔ سڑک پر مکمل خاموشی چھاگئ۔
دھیرے سے میں نے کاغذ کے پرچے کو اس کے ہاتھ سے جدا کیا۔ اس پر لکھا تھا۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تمہیں جب یہ خط ملے گا میں اس دنیا کو چھوڑ چکا ہوں گا۔ ایک مدہم آواز اس کے پرس میں رکھے ہوۓ سیل فون سے آرہی تھی۔ میں نے فون میں کہا ۔ “جی“۔ " کیا ناز وہاں ہیں مجھے ان کو بہت ضروری پیغام دینا ہے"۔ “ تم کون ہو"؟ میں نے پوچھا " میں اس کا بھائی ہوں۔ ناز سے کہنا کہ جمیل زندہ ہے“۔ میرے ہاتھ سے سیل فون گرگیا۔
ختم شُد