ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
by نظیر اکبر آبادی

ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
اور پاس جو بیٹھوں تو سناتا ہے سرک بے

کہتا ہوں کبھی گھر میں مرے آ تو ہے کہتا
چوکھٹ پہ ہماری کوئی دن سر تو پٹک بے

جب بدر نکلتا ہے تو کہتا ہے وہ مغرور
کہہ دو اسے یاں آن کے اتنا نہ چمک بے

پردہ جو الٹ دوں گا ابھی منہ سے تو دم میں
اڑ جائے گی چہرے کی ترے سب یہ جھمک بے

سب بانکپن اب تیرا نظیرؔ عشق نے کھویا
کیا ہو گئی سچ کہہ وہ تیری دوت دبک بے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse