ٹوٹے پڑتے ہیں یہ ہیں کس کے خریدار تمام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ٹوٹے پڑتے ہیں یہ ہیں کس کے خریدار تمام
by بیخود دہلوی

ٹوٹے پڑتے ہیں یہ ہیں کس کے خریدار تمام
صبح سے بند ہیں کیوں مصر کے بازار تمام

اب رہا کون جو دیدار تمہارا دیکھے
پردہ اٹھتے ہی ہوئی حسرت دیدار تمام

اک جھلک دیکھ لی پردے سے تو ظالم نے کہا
لوٹ لی تو نے مرے حسن کی سرکار تمام

حسن انداز ادا ناز نگاہیں شوخی
دل مرا چھین کے بن بیٹھے ہیں مختار تمام

اب بھی اپنا کوئی بیخودؔ مجھے سمجھا کہ نہیں
چھپ گئے اب تو مرے حال کے اخبار تمام

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse