وہ یوں شکل طرز بیاں کھینچتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ یوں شکل طرز بیاں کھینچتے ہیں (1900)
by حبیب موسوی
324751وہ یوں شکل طرز بیاں کھینچتے ہیں1900حبیب موسوی

وہ یوں شکل طرز بیاں کھینچتے ہیں
کہ قائل کی گویا زباں کھینچتے ہیں

یہ تشہیر دیکھو سگ کوئے دلبر
ابھی تک مری ہڈیاں کھینچتے ہیں

کرے گر کوئی ذکر جا کر ہمارا
وہ تالو سے اس کی زباں کھینچتے ہیں

نہ صدمہ سے کیوں خشک ہو خون بلبل
گلوں کا عرق باغباں کھینچتے ہیں

بڑھی ہے سفر میں وطن کی محبت
مکینوں کو کیا کیا مکاں کھینچتے ہیں

کرے کون سودائے زلف مسلسل
ہمیں ہیں جو یہ بیڑیاں کھینچتے ہیں

پس مرگ معراج عاشق کی دیکھو
لحد کی زمیں آسماں کھینچتے ہیں

نشانہ بنائیں گے تیر نظر کا
محبت کے دل پر نشاں کھینچتے ہیں

ذرا دم تو لینے دے اے موت مجھ کو
ٹھہر کر نفس ناتواں کھینچتے ہیں

ضعیفی میں بھی دل میں ہے یاد ابرو
کبادہ ہیں خود اور کماں کھینچتے ہیں

مجھے دیکھ کر جب وہ منہ موڑتے ہیں
تو دل میں چھپا کر سناں کھینچتے ہیں

غضب ہے حسینوں کا طور تکلم
دلوں کو یہ جادو بیاں کھینچتے ہیں

بڑھا فکر میں رنگ زردی رخ سے
یہ عطر گل زعفراں کھینچتے ہیں

حبیبؔ اب زمیں آسماں سر پہ لیں گے
کہ نالے مرے بجلیاں کھینچتے ہیں

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse