وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں
by ریاض خیرآبادی

وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں
یوں ہی پردہ سا کچھ حائل ہو ہم ہوں

ستائیں ہم اسی طرح جس طرح چاہیں
کوئی نشہ میں یوں غافل ہو ہم ہوں

تمہارا بام رشک آسماں ہو
اگر تم ہو مہ کامل ہو ہم ہوں

مزا خلوت کا آئے قتل گہہ میں
وہاں کوئی نہ ہو قاتل ہو ہم ہوں

ہر اک گوشے میں جیسے حشر برپا
نئے فتنے ہوں وہ محفل ہو ہم ہوں

نہیں پروا نہ سبزہ ہو لب جو
یہ مینا ہو لب ساحل ہو ہم ہوں

ہمارے ہاتھ میں ہو تیغ قاتل
نہ ہو کوئی عدو بسمل ہو ہم ہوں

گرہ ہو زلف کی دل میں ہمارے
ہمارا عقدۂ مشکل ہو ہم ہوں

پرانے نجد میں اب ہوں نئے آج
نئی لیلیٰ نیا محمل ہو ہم ہوں

یوں ہی ہم اپنی ہستی سے گزر جائیں
ہماری سعئ لا حاصل ہو ہم ہوں

یہ کم بخت اک جہان آرزو ہے
نہ ہو کوئی ہمارا دل ہو ہم ہوں

نہ ہم اٹھیں نہ کوئی ہاتھ اٹھائے
گلے پر خنجر قاتل ہو ہم ہوں

یہ سہو و محو ہوں ہم سیر گل میں
ہر اک غنچہ ہمارا دل ہو ہم ہوں

ریاضؔ اس شوخ کو بھی تم سنا دو
وہ کیا ہے چلبلا سا دل ہو ہم ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse