وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
by اکبر الہ آبادی

وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
وہ فلک نہ رہا وہ سماں نہ رہا وہ مکاں نہ رہے وہ مکیں نہ رہے

وہ گلوں میں گلوں کی سی بو نہ رہی وہ عزیزوں میں لطف کی خو نہ رہی
وہ حسینوں میں رنگ وفا نہ رہا کہیں اور کی کیا وہ ہمیں نہ رہے

نہ وہ آن رہی نہ امنگ رہی نہ وہ رندی و زہد کی جنگ رہی
سوئے قبلہ نگاہوں کے رخ نہ رہے اور در پہ نقش جبیں نہ رہے

نہ وہ جام رہے نہ وہ مست رہے نہ فدائی عہد الست رہے
وہ طریقۂ کار جہاں نہ رہا وہ مشاغل رونق دیں نہ رہے

ہمیں لاکھ زمانہ لبھائے تو کیا نئے رنگ جو چرخ دکھائے تو کیا
یہ محال ہے اہل وفا کے لیے غم ملت و الفت دیں نہ رہے

ترے کوچۂ زلف میں دل ہے مرا اب اسے میں سمجھتا ہوں دام بلا
یہ عجیب ستم ہے عجیب جفا کہ یہاں نہ رہے تو کہیں نہ رہے

یہ تمہارے ہی دم سے ہے بزم طرب ابھی جاؤ نہ تم نہ کرو یہ غضب
کوئی بیٹھ کے لطف اٹھائے گا کیا کہ جو رونق بزم تمہیں نہ رہے

جو تھیں چشم فلک کی بھی نور نظر وہی جن پہ نثار تھے شمس و قمر
سو اب ایسی مٹی ہیں وہ انجمنیں کہ نشان بھی ان کے کہیں نہ رہے

وہی صورتیں رہ گئیں پیش نظر جو زمانہ کو پھیریں ادھر سے ادھر
مگر ایسے جمال جہاں آرا جو تھے رونق روئے زمیں نہ رہے

غم و رنج میں اکبرؔ اگر ہے گھرا تو سمجھ لے کہ رنج کو بھی ہے فنا
کسی شے کو نہیں ہے جہاں میں بقا وہ زیادہ ملول و حزیں نہ رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse