وہ ہمکنار ہے جام شراب ہاتھ میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ ہمکنار ہے جام شراب ہاتھ میں ہے
by حفیظ جونپوری

وہ ہمکنار ہے جام شراب ہاتھ میں ہے
بغل میں چاند ہے اور آفتاب ہاتھ میں ہے

پلا کے پیر کو ساغر جواں بناتا ہے
مزہ ہے پیر مغاں کے شباب ہاتھ میں ہے

بر آئی آج مرے دل کی آرزو صد شکر
کہ دامن آپ کا روز حساب ہاتھ میں ہے

یہ آئے کس کے قدم دست موج سے دریا
لئے ہوئے جو کلاہ حباب ہاتھ میں ہے

عرق وصال میں پونچھا ہے گل سے گالوں کو
یہی ہے وجہ کہ بوئے گلاب ہاتھ میں ہے

بن آئی ہے مرے دست ہوس کی وصل کی شب
حنا لگائے جو وہ مست خواب ہاتھ میں ہے

ہوا سے تیز وہ آتا ہے نامہ بر میرا
نیاز نامے کا میرے جواب ہاتھ میں ہے

کھلے ہیں گل گل عارض کے وصف میں سر دست
قلم مرا ہے کہ شاخ گلاب ہاتھ میں ہے

حفیظؔ آپ کا دیوان یہ ہوا مقبول
کہ جس کو دیکھو لیے یہ کتاب ہاتھ میں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse