وہ گل ہیں نہ ان کی وہ ہنسی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ گل ہیں نہ ان کی وہ ہنسی ہے
by ریاض خیرآبادی

وہ گل ہیں نہ ان کی وہ ہنسی ہے
دیکھو جدھر اس سی پڑی ہے

کیوں سوگ کی رسم جیتے جی ہے
مرنے کی ہمارے کیا کہی ہے

آڑی ہیکل کو چوم لے گی
وہ چیز جو کچھ اٹھی اٹھی ہے

دعوت تھی رقیب کی مرے گھر
جوتی میں دال کیا بٹی ہے

آیا دبے پاؤں قبر پر کون
کوئی نہیں میری بیکسی ہے

ایک وضع پر اب خدا نباہے
توبہ کر کے شراب پی ہے

واعظ ہے خراب خواہش خلد
بالکل یہ شخص جنتی ہے

کچھ پھوٹ پڑی ہے گھنگھرؤں میں
چھاگل کچھ ان کی کہہ رہی ہے

مجبور فرشتہ ہے بدی کا
پہلے ہی سے کچھ کہی بدی ہے

پیوستہ نہیں مرا لب شوق
تیرے لب پر تری ہنسی ہے

اب کون کلیم بن کے آیا
پھر طور پر آگ سی لگی ہے

ہے آنکھ میں آنکھ کون ڈالے
کوئی نہیں تیری آرسی ہے

کیسا پینا کہاں کی توبہ
اب میں ہوں خدا ہے بے خودی ہے

خوش ہو گے ریاضؔ سے بھی ملنا
کیا باغ و بہار آدمی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse