وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا
by آرزو لکھنوی

وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا
جواب خط نہیں آیا تو یہ سمجھو جواب آیا

قریب صبح یہ کہہ کر اجل نے آنکھ جھپکا دی
ارے او ہجر کے مارے تجھے اب تک نہ خواب آیا

دل اس آواز کے صدقے یہ مشکل میں کہا کس نے
نہ گھبرانا نہ گھبرانا میں آیا اور شتاب آیا

کوئی قتال صورت دیکھ لی مرنے لگے اس پر
یہ موت اک خوشنما پردے میں آئی یا شباب آیا

پرانے عہد ٹوٹے ہو گئے پیماں نئے قائم
بنا دی اس نے دنیا دوسری جو انقلاب آیا

گزر گاہ محبت بن گئی اک مستقل بستی
لگا کر آگ آیا گھر کو جو خانہ خراب آیا

معمہ بن گیا راز محبت آرزوؔ یوں ہی
وہ مجھ سے پوچھتے جھجکے مجھے کہتے حجاب آیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse