وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
by فانی بدایونی

وہ کہتے ہیں کہ ہے ٹوٹے ہوئے دل پر کرم میرا
مگر منجملۂ آداب غم خواری ہے غم میرا

وہاں سجدے سے اب تک قدسیوں کے سر نہیں اٹھتے
پڑا تھا جس جگہ راہ محبت میں قدم میرا

زہے تقدیر ناکامی کہ تیری مصلحت ٹھہری
تری مرضی سے وابستہ ہوا اللہ رے غم میرا

نہ جانیں اس سفر کی منزل اول کہاں ہوگی
فنا کی آخری منزل پہ ہے پہلا قدم میرا

مرے جوش طلب کی شان استغنا کوئی دیکھے
کہ میں رہبر سے آگے مجھ سے آگے ہے قدم میرا

میں وہ آزردۂ وہم مسرت ہوں معاذ اللہ
کہ غم کو غم سمجھنے سے بھی گھبراتا ہے دم میرا

یہ محروم تبسم میر سامان تبسم ہے
تری بزم طرب میں معتبر ہے اشک غم میرا

اب آگے کس سے لکھا جائے آغاز محبت پر
فسانہ ختم کر دیتے ہیں ارباب قلم میرا

مری آوارگی ہر قید سے بے زار ہے شاید
کہ اب اس کی گلی میں بھی گزر ہوتا ہے کم میرا

بقا کہتے ہیں جس کو وہ مرا احسان ہے فانیؔ
وہ حادث ہوں کہ دنیائے قدم بھرتی ہے دم میرا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse