وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں
by اختر شیرانی

وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں
محبت کریں خوش رہیں مسکرا دیں

غرور اور ہمارا غرور محبت
مہ و مہر کو ان کے در پر جھکا دیں

جوانی ہو گر جاودانی تو یا رب
تری سادہ دنیا کو جنت بنا دیں

شب وصل کی بے خودی چھا رہی ہے
کہو تو ستاروں کی شمعیں بجھا دیں

بہاریں سمٹ آئیں کھل جائیں کلیاں
جو ہم تم چمن میں کبھی مسکرا دیں

عبادت ہے اک بے خودی سے عبارت
حرم کو مے مشک بو سے بسا دیں

وہ آئیں گے آج اے بہار محبت
ستاروں کے بستر پہ کلیاں بچھا دیں

بناتا ہے منہ تلخی مے سے زاہد
تجھے باغ رضواں سے کوثر منگا دیں

جنہیں عمر بھر یاد آنا سکھایا
وہ دل سے تری یاد کیونکر بھلا دیں

تم افسانۂ قیس کیا پوچھتے ہو
ادھر آؤ ہم تم کو لیلیٰ بنا دیں

یہ بے دردیاں کب تک اے درد غربت
بتوں کو پھر ارض حرم میں بسا دیں

وہ سرمستیاں بخش اے رشک شیریں
کہ خسرو کو خواب عدم سے جگا دیں

ترے وصل کی بے خودی کہہ رہی ہے
خدائی تو کیا ہم خدا کو بھلا دیں

انہیں اپنی صورت پہ یوں ناز کب تھا
مرے عشق رسوا کو اخترؔ دعا دیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse