وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
by مومن خان مومن

وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
خواب کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے

اس پری وش سے لگاتے ہیں مجھے
لوگ دیوانہ بناتے ہیں مجھے

یا رب ان کا بھی جنازہ اٹھے
یار اس کو سے اٹھاتے ہیں مجھے

ابروئے تیغ سے ایما ہے کہ آ
قتل کرنے کو بلاتے ہیں مجھے

بے وفائی کا عدو کی ہے گلہ
لطف میں بھی وہ ستاتے ہیں مجھے

حیرت حسن سے یہ شکل بنی
کہ وہ آئینہ دکھاتے ہیں مجھے

پھونک دے آتش دل داغ مرے
اس کی خو یاد دلاتے ہیں مجھے

گر کہے غمزہ کسے قتل کروں
تو اشارت سے بتاتے ہیں مجھے

میں تو اس زلف کی بو پر غش ہوں
چارہ گر مشک سونگھاتے ہیں مجھے

شعلہ رو کہتے ہیں اغیار کو وہ
اپنے نزدیک جلاتے ہیں مجھے

جاں گئی پر نہ گئی جورکشی
بعد مردن بھی دباتے ہیں مجھے

وہ جو کہتے ہیں تجھے آگ لگے
مژدۂ وصل سناتے ہیں مجھے

اب یہ صورت ہے کہ اے پردہ نشیں
تجھ سے احباب چھپاتے ہیں مجھے

مومنؔ اور دیر خدا خیر کرے
طور بے ڈھب نظر آتے ہیں مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse