وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
by ریاض خیرآبادی

وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
کس گھر میں خوشی ہوتی ہے ماتم نہیں ہوتا

ایسے بھی ہیں دنیا میں جنہیں غم نہیں ہوتا
اک غم ہے ہمارا جو کبھی کم نہیں ہوتا

تم جا کے چمن میں گل و بلبل کو تو دیکھو
کیا لطف تہ چادر شبنم نہیں ہوتا

کیا سرمہ بھری آنکھوں سے آنسو نہیں گرتے
کیا مہندی لگے ہاتھوں سے ماتم نہیں ہوتا

اڑتی تھی وہ شے آتی تھیں جنت کی ہوائیں
اب رندوں کا جمگھٹ سر زمزم نہیں ہوتا

یہ جان کے کیوں روئے گا کوئی سر تربت
سبزہ سے جدا قطرۂ شبنم نہیں ہوتا

یہ شان گدائے در میخانہ ہے ساقی
بھولے سے وہ ہم بزم کے و جم نہیں ہوتا

مایوس‌ اثر اشک عنادل نہیں ہوتے
مانوس اثر گریۂ شبنم نہیں ہوتا

کچھ اور ہی ہوتی ہیں بگڑنے کی ادائیں
بننے میں سنورنے میں یہ عالم نہیں ہوتا

سو رہتے ہو روتے نہیں تم جان کو اس کی
اب غیر کے گھر رات کو ماتم نہیں ہوتا

گھٹتی نہیں تربت میں بھی فرقت کی اذیت
یہ درد وہ ہے مر کے بھی جو کم نہیں ہوتا

تسکین تو ہو جائے جو تو پھوٹ کے بہہ جائے
یہ تجھ سے بھی اے دیدۂ پر نم نہیں ہوتا

سبزہ مری تربت کا رگ گل نہیں بلبل
ان آنسوؤں سے تیرے تو یہ نم نہیں ہوتا

مٹتے ہوئے دیکھی ہے عجب حسن کی تصویر
اب کوئی مرے مجھ کو ذرا غم نہیں ہوتا

وہ بھی تو مٹے جان جہاں نام تھا جان کا
یہ نظم جہاں پھر بھی تو برہم نہیں ہوتا

کچھ بھی ہو ریاضؔ آنکھ میں آنسو نہیں آتے
مجھ کو تو کسی بات کا اب غم نہیں ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse